قطر بحران ‘ اضافی ڈیڈ لائن ختم ۔ مشرقِ وسطیٰ سنگین خطرات کے نرغے میں
شیئر کریں
20 سال سے قطر اخوان المسلمون، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسے گروپوں کی حمایت کر کے خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے، سعودی حامی حلقوں کا الزام
سعودی عرب، یواے ای اور بحرین کی جانب سے ترکی کے فوجی اڈے ، الجزیرہ چینل کی بندش اور ایران سے سفارتی تعلقات میں کمی لانے کے مطالبات
فرینک گارڈنر
چار عرب و خلیجی ممالک کی جانب سے قطر پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے جو 13 مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان کی منظوری کے لیے دی گئی مہلت منگل کی شب ختم ہوگئی ہے۔قطر اس معاملے میں اپنا جواب فریقین کے درمیان ثالثی کرنے والے ملک کویت کے حکام کو دے چکا ہے اور قطری وزیرِ خارجہ کہہ چکے ہیں کہ یہ مطالبات اتنے غیرحقیقی ہیں کہ انھیں مسترد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
متحدہ عرب امارات کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جیسے ہی قطر کو دی گئی مہلت ختم ہوتی ہے اس کے عرب ممالک کی تنظیموں کا حصہ رہنے کی پیشکش بھی واپس لے لی جائے گی، اس پر عائد اقتصادی و سیاسی پابندیاں مستقل ہو جائیں گی اور قطر کے ہمسایہ عرب ممالک اس کا بائیکاٹ کر دیں گے۔اس بحران کی وجہ سے مغربی ممالک کے لیے دو چیزیں باعثِ تشویش ہیں۔ پہلی تو یہ کہ قطر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جاری جنگ میں ایک کلیدی اتحادی ہے اور وہاں امریکا کا مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا فوجی اڈہ واقع ہے۔دوسرا یہ کہ قطر نے دنیا بھر میں 335 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جن میں سے اربوں ڈالر برطانیا اور امریکا میں لگائے گئے ہیں۔ اگر مغرب کو قطر اور اس کے مخالفین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو یہ سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
یہاںسوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟یہ بات دہشت گردی کی ہے یا پھر خارجہ پالیسی کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس فریق کی بات سن رہے ہیں۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین قطر پر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 20 سال سے قطر اخوان المسلمون، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسے گروپوں کی حمایت کر کے خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطر نے 2014 میں ایسے گروہوں کی مدد ترک کرنے کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہیں ہوا۔یہ ممالک قطر پر عراق میں اغوا کی جانے والی شاہی شکاری پارٹی کی رہائی کے لیے ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کو ایک ارب ڈالر کی رقم بطور تاوان ادا کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔
قطر دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گرد گروپوں کو تاوان کی ادائیگی کے الزامات سے انکار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس تنازع کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اصل بات یہ ہے کہ اس کے طاقتور ہمسائے اس کی خارجہ پالیسی کو سعودی خارجہ پالیسی کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ قطر کے وزیرِ خارجہ نے اس اقدام کو ملک کی سا لمیت پر حملہ قرار دیا ہے۔سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے پیش کیے گئے 13 مطالبات میں ٹی وی چینل الجزیرہ کی بندش بھی شامل ہے جو کہ قطر کے ہمسایہ ممالک کو بُری طرح کھٹکتا ہے۔ترک فوجی اڈے کی بندش کے لیے بھی کہا گیا ہے جہاں حال ہی میں مزید فوجی اور بکتربند گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ قطر ایران سے سفارتی تعلقات میں کمی لائے۔
امریکا جو کہ یہ تنازع حل کروانے کے لیے کوشاں ہیں، ان مطالبات سے خوش دکھائی نہیں دیتا اور اس نے کہا ہے کہ مطالبات مناسب اور قابلِ عمل ہونے چاہئیں۔اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ کیا قطر کے پاس اس کاجواب ہے؟یقیناً ایسا ہے لیکن جواب سعودی عرب کے پاس بھی ہے۔اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ کئی برس سے قطر کے اخوان المسلمین، حماس اور شام اور لیبیا میں اسلام پسند گروپوں سے تعلقات رہے ہیں۔ الجزیرہ پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ایسے انتہاپسند مبلغین کے خیالات نشر کرتا ہے جو ایسے اقدامات کے حامی ہیں جنھیں زیادہ تر لوگ دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔
قطر کی ہمسایہ قدامت پسند قبائلی شہنشاہیت والی ریاستیں جن میں سعودی عرب کا آلِ سعود خاندان، ابوظہبی کا النہیان خاندان اور بحرین کا الخلیفہ خاندان شامل ہے، سب اس خیال کے حامل ہیں کہ یہ اسلام پسند گروپ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہیں اور کچھ معاملات میں تو وہ اخوان المسلمین کو دہشت گردی کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قطر حقیقت میں دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہا ہے؟ گزشتہ ہفتے لندن آنے والے قطری حکام اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں لیکن جب 2014 میں قطری انٹیلی جنس کے سربراہ سے میری ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ شام میں کالعدم شدت پسند تنظیم جبہتہ النصرہ کے قبضے سے کئی یرغمالی رہا کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس وقت اس گروپ کو القاعدہ کی حمایت حاصل تھی اور اغواکار مغویوں کو بغیر تاوان حاصل کیے کب اپنی مرضی سے رہا کرتے ہیں؟قطر پر الزام لگانے والے ممالک نے ایسے 59 افراد کی فہرست جاری کی ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے مصدقہ حامی ہیں اور قطر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق تو قطر کے شاہی خاندان سے بھی ہے۔قطر کا کہنا ہے کہ یہ فہرست سیاسی طور پر تیار کردہ جھوٹ ہے اور اس کی سرزمین پر موجود کسی بھی فرد پر دہشت گردوں سے تعاون کا شبہ ہو تو یا اس کی ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے یا اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کے پاس ثبوت ہیں؟بہت سے افراد کے لیے سعودی عرب کی جانب سے کسی دوسرے ملک پر اسلامی شدت پسندی کے حمایت کا الزام عائد کیا جانا عجیب بات ہے۔نائن الیون حملوں کے 19 میں سے 15 ہائی جیکروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ سعودی حکام کی جانب سے کوششوں کے باوجود چار ہزار سے زیادہ سعودی شہری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا حصہ ہیں۔یہ بھی اہم ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی جانب سے جن خیالات اور شدت پسندانہ نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے وہ سعودی قدامت پسند مذہبی حلقوں کے خیالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ان خیالات کے مطابق جو وہابی اسلام کے سخت اور قدامت پسند خیالات سے مطابقت نہیں رکھتا تو ایسا مسلمان ‘کافر’ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے خیالات رکھنے والوں کے لیے دنیا کے ڈیڑھ سے دو سو ملین اہلِ تشیع مسلمان کافر ہیں۔سعودی عرب میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اسلام کی اس سخت تشریح سے دوری اختیار کرے اور ملک کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کی مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی بھی کی ہے۔لیکن سعودی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں مدرسوں، مساجد اور سخت گیر خیالات کے حامل نصاب کے لیے مالی امداد دینے کی وجہ سے اس پر انتہاپسندی کی حمایت کے الزامات لگنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا اس سارے مسئلے میں برطانیا شامل ہے؟
براہ راست تو نہیں، لیکن قطر نے برطانیا سمیت اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ عرب ریاستوں کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے قطر کی مدد کریں۔ خلیجی ممالک کے علاقوں میں نگرانی کا نظام لانے کے لیے بات کی جارہی ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ کیا کوئی ملک خفیہ طور پر شدت پسندی یا دہشت گردی کی فنڈنگ کر رہا ہے۔
قطر اور متحدہ عرب امارات تو کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر تیار ہیں لیکن سعودی عرب کی پوزیشن تاحال واضح نہیں ہے۔برطانیا کے لیے صورتحال شاید اس وقت مزید شدت اختیار کر جائے، اگر سعودی اتحاد دیگر ممالک سے قطر اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کاروبار کرنے کی شرط رکھ دے۔جہاں مشہور زمانہ ڈیپارٹمینٹل ا سٹور ہیرڈز قطری ملکیت ہے، وہیں لندن کی بلند عمارت شارڈ میں 90 فیصد، لندن اسٹاک ایکسچینج میں 22 فیصد، بارکلیز میں چھ فیصد اور کانیری وارف میں 50 فیصد تک قطر کا حصہ ہے۔خاص طور پر بریگزٹ کے بعد برطانیا اس ساری سرمایہ کاری سے محرومی بالکل برداشت نہیں کر سکے گا۔
اس صورت حال میں یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ کیا یہ سب جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے؟ایسا لگتا تو نہیں لیکن ممکنات میں ضرور شامل ہے۔متحدہ عرب امارت کی حکومت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ان کی حکومت اس سارے مسئلے میں ’فوج‘ کو شامل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے، لیکن اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو یہ تمام فریقین کے لیے تباہ کن ہوگا۔
قطر کا ترکی کے ساتھ ایک طویل فوجی معاہدہ ہے اور اس وقت بھی امریکی اور ترک فوجی اڈے وہاں موجود ہیں۔ ماسکو کے لیے قطری سفیر نے اس حوالے سے مجھے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ ان کے خیال میں قطر میں ترک افواج کی موجودگی کسی بھی قسم کے حملے کو اب تک روکنے میں مددگار رہی ہے۔اس تنازع میں شامل تمام ممالک جدید مغربی ہتھیاروں کی خرید پر اچھی خاصی رقم خرچ کر چکے ہیں لیکن ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا مقصد کبھی بھی آپس میں کسی پر استعمال کرنا نہیں تھا۔ترکی نے افواج اور اشیا ء قطر روانہ کی ہیں۔
امریکا اور قطر کے درمیان 12 ارب ڈالر مالیت کے ایف 15 طیاروں کی خرید کا منصوبہ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر باب کارکر پہلے ہی روک چکے ہیں۔ باب کارکر اس سارے مسئلے کے حل تک تمام خلیجی عرب اتحادیوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت روکنا چاہتے ہیں۔ترک حکومت قطر کی حمایت کر رہی ہے، فوج اور اشیا بھیج رہی ہے تاکہ خلیجی عرب پڑوسیوں کی جانب سے فضائی روابط ختم کرنے کے بعد قطر کی مدد کی جا سکے۔قطر اور ترکی دونوں ہی سیاسی اسلام کی حمایت کرتے ہیں اور گزشتہ ہفتے مشترکہ تدابیر اور مستقبل کے تعاون کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی قطری وفد ترک وزیر دفاع سے ملاقات کے لیے انقرہ میں موجود تھا۔
اس حوالے سے ایک اضافی مشکل یہ درپیش ہے کہ ترکی جو کہ نیٹو رکن ہے اور وہ پہلے ہی شام کی خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے۔ایران جو قطر کا ساحلی پڑوسی ہے اور دونوں ہی ممالک خلیجی پانیوں کے نیچے موجود ایک بڑے نارتھ ڈوم گیس کے ذخائر کو استعمال کرتے ہیں۔سعودی عرب نے اپنی سرحد قطر کے لیے بند کر رکھی ہے اور اسے تمام کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں ایران مسلسل کھانے کی اشیا سے بھرے جہاز وہاں کے لیے روانہ کر رہا ہے، جس کا قطر 1948 کے برلن ایئر لفٹ سے موازنہ کر رہا ہے۔قطر ایک اور خلیجی عرب پڑوسی اومان کے تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ تان کے ساتھ اچھے تعلقات کا حق رکھتا ہے۔ اگر یہ تنازع حل نہیں ہوتا تو مستقبل میں قطر اور ایران کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ہو گا کیا؟اب تک امریکا اور کویت کی جانب سے کی جانے والی ثالثی کی کوششیں تاحال فریقین کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو کم کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ سعودی کہتے ہیں کہ ان کے مطالبات پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، اماراتی حکام کا کہنا ہے کہ ’قطریوں پر صفر اعتماد‘ ہے اور قطر کا کہنا ہے کہ وہ ’محاصرے میں غیر قانونی بندش‘ میں مذاکرات نہیں کرے گا۔سعودی عرب بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے وزرا ئے خارجہ بدھ کو آئندہ اقدامات اور تعاون کے لیے قاہرہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔اگر کوئی حل تلاش کر بھی لیا جاتا ہے اور موجودہ پابندیاں جزوی طور پر اٹھا بھی لی جاتی ہیں لیکن پھر بھی اس سارے تنازع سے لگنے والے گھاؤ مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔
قطرکے عوام اپنے امیر کی حمایت میں ان کی پشت پر کھڑے نظر آتے ہیں۔اس تنازع کی وجہ سے1981 میں بننے والی خلیج تعاون کی تنظیم اس وقت ٹوٹ چکی ہے اور اس کا ایک بار پھر سے مل کر کا کام کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
موجودہ صورت حال میں عملی طور پر سوائے اس کے کہ قطر مکمل طور ہار مان لے، خلیجی عرب ریاستوں میں تین دھڑے بنتے واضح نظر آ رہے ہیں۔ ان میں سخت گیر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تین ایسے ممالک جنھیں قطری رویے پر سب سے زیادہ تشویش ہے۔قطر اگر تمام مطالبات کے آگے سر نہیں جھکاتا تو وہ اکیلا رہ جائے گا اور اسے صرف غیر عرب ممالک ایران اور ترکی کی حمایت حاصل ہوگی۔
غیر جانبدار ممالک میں اومان اور کویت ہوں گے جو کہ تمام فریقین کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں اور جن کو یہ سارا تنازع پسند نہیں۔خلیج عرب کے اس طرح سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے مستقبل میں واحد ایران کو فائدہ ہوگا جو کہ سعودی عرب کا حریف ہے اور وہ اپنے دشمنوں کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔