میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیچوہو کی ایک اور جعلسازی کا انکشاف‘سندھ پبلک سروس کمیشن کو بائی پاس کرکے ہیڈ ماسٹرز بھرتی کرلیے

پیچوہو کی ایک اور جعلسازی کا انکشاف‘سندھ پبلک سروس کمیشن کو بائی پاس کرکے ہیڈ ماسٹرز بھرتی کرلیے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۶ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

معاملہ سنگین ہونے پر حکومت سندھ سابق سیکرٹری تعلیم کے تبادلے پر مجبور ہوگئی، 800اساتذہ کی ٹریننگ کیلےے5کروڑروپے بھی جاری کرنے پڑے
ہیڈ ماسٹر گریڈ 17 کا افسرہوتا ہے جس کی بھرتی کا اختیارسندھ پبلک سروس کمیشن کو ہوتا ہے،پیچوہو نے پیسے بنانے کیلیے آئی بی اے سے ٹیسٹ کروادیے
قابلیت کے معیار میں بھی امیدواروں سے ہاتھ کیا گیا ،ہر امیدوار سے 20 لاکھ روپے طلب کئے گئے جس نے دیے ،اس کی فہرست بناکر آئی بی اے سکھر کو دی گئی
الیاس احمد
سابق صدر آصف زرداری کے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو نے محکمہ تعلیم میں وہ کارنامے سر انجام دیے کہ عقل دنگ رہ جائے ،محکمہ تعلیم میں انہوں نے اپنی ہی مرضی سے ہرفیصلے کےے چاہے وہ فیصلے قانونی تھے یا غیر قانونی ، مگر انہوں نے اس پر عمل کرکے دکھادیا کیونکہ انہیں نتائج کی کوئی پروانہےں رہی۔ رواں مالی سال 2016-17ءکا بجٹ جب وزیر خزانہ (موجودہ وزیر اعلیٰ) سید مراد علی شاہ پیش کررہے تھے تو اس وقت انہوں نے اعلان کردیا کہ حکومت سندھ 2 ہزار ہیڈ ماسٹرز بھرتی کرے گی۔ کسی نے اس وقت کے وزیر خزانہ یا وزیر اعلیٰ سے پوچھا کہ جناب ہیڈ ماسٹر تو گریڈ 17 کا ہوتا ہے آپ کس قانون کے تحت ان کو بھرتی کررہے ہیں؟ گریڈ 17 کی بھرتی کا اختیار تو سندھ پبلک سروس کمیشن کو ہوتا ہے لیکن فضل اللہ پیچوہو کی سفارش کو وہ بھلا کیسے مسترد کرسکتے تھے؟ فضل اللہ پیچوہو نے جال ہی ایسا بچھایا تھا جس میں مراد علی شاہ اور قائم علی شاہ آسانی سے پھنس گئے۔ فضل اللہ پیچوہو نے حکمت عملی یہ بنائی کہ ان ہیڈ ماسٹرز کو کنٹریکٹ پر ہیڈ ماسٹر بنایا جائے گا اور دو سال بعد ان کو ہٹادیا جائے گا ۔یہ عجیب و غریب منطق تھی مگر اس پر اعتراض کون کرتا؟ خیر اخبار میں اشتہار دیا گیا، تجربہ اور تعلیمی اسناد مقرر کی گئیں، ہزاروں اساتذہ نے درخواستیں دیں، اچانک فضل اللہ پیچوہو نے ایک لیٹر جاری کر دیا کہ تجربہ 3 سال کا نہیں بلکہ پانچ سال کا ہونا چاہیے، اخبار میں اشتہار دیتے وقت غلطی ہوگئی اور پھر پانچ سال تجربہ کی بنیاد پر انٹرویو کے لئے اساتذہ کو بلایا گیا جس میں 1500 کامیاب ٹھہرے لیکن یہاں بھی ڈنڈی ماری گئی اور اس طرح پیچیدگی پیدا کی گئی کہ 1050 امیدوار کامیاب قرار پائے ۔آئی بی اے سکھر سے امیدواروں کے انٹرویو کرائے گئے ،جب سندھ پبلک سروس کمیشن جیسا ادارہ ہے تو پھر آئی بی اے یا این ٹی ایس سے انٹرویو لینے کا کیا مطلب تھا؟ مطلب واضح تھا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان اگرامیدوار پاس کرلیتے تو وہ میرٹ پر آتے اور رشوت نہ دیتے مگر آئی بی اے کا ٹیسٹ لینے سے قبل یہاں تو ہر امیدوار سے 20 لاکھ روپے طلب کئے گئے جس نے دیے ،اس کی فہرست بناکر آئی بی اے سکھر کو دی گئی ۔آئی بی اے سکھر نے اس میں سے 800 کے قریب امیدواروں کو ہیڈ ماسٹر بننے کا اہل قرار دے دیا، یوں پورا معاملہ تنازعات کی نذر ہوتا گیا۔رہ جانے والے امیدواروں نے اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، فضل اللہ پیچوہو کو اصل منصوبہ ناکام ہوتا نظر آرہا تھا ،ایسی صورتحال میں حکومت سندھ بری طرح پھنس گئی ۔ان ہی دنوں میر ہزار خان بجارانی کو وزیر تعلیم بنایا گیا لیکن انہوں نے اس تنازع کو دیکھ کر محکمہ تعلیم کا قلمدان سنبھالنے سے قطعی انکار کردیااور پھر یہ محکمہ چند روز نثار کھوڑو کو دیا گیا لیکن بعد ازاں یہ محکمہ جام مہتاب ڈہر کو دے دیا گیا، جام مہتاب ڈہر کی شہرت اچھی ہے اور انہوں نے خواہ مخواہ خود کو تنازعات میں نہیں الجھایا۔ انہوں نے پوری صورتحال کی چھان بین کرکے بڑے صاحب کو بتادیا کہ جناب اس معاملہ کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ فضل اللہ پیچوہو سے محکمہ تعلیم واپس لے کر دوسرا محکمہ دے دیا جائے ،ورنہ مصیبت بڑھ جائے گی۔ بڑے صاحب نے بھی محسوس کیا کہ پہلے سندھ ہائی کورٹ سے فضل اللہ پیچوہو کے خلاف فیصلہ آیا ہے، پھر سپریم کورٹ سے بھی ایسے فیصلے آسکتے ہیں۔ اس لئے اس سے بہتر ہے کہ فضل اللہ پیچوہو کو دوسرے محکمے میں بھیجا جائے تب انہوں نے منظوری دے دی اور ان کو محکمہ صحت کا سیکریٹری بنادیا گیا۔ فضل اللہ پیچوہو محکمہ تعلیم سے گئے تو سب نے شکر ادا کیا اور محکمہ تعلیم سے مصیبت بھی ٹل گئی۔اس کے بعد محکمہ تعلیم کے حکام اور حکومت سندھ نے مل بیٹھ کر طے کیا کہ اب گند تو ہوچکا ہے اس گند کو صاف کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ہیڈ ماسٹرز کو بھرتی کیا جائے ،بالآخر 850 ہیڈ ماسٹرز بھرتی کرلیے گئے اور اب ان کو زیبسٹ سے ٹریننگ بھی دلائی جارہی ہے اور اس مقصد کے لئے بجٹ سے ہٹ کر ان ہیڈ ماسٹرز کی تربیت کے لئے پانچ کروڑ روپے کا فند بھی جاری کردیا گیا ہے ۔اس طرح جو کھیل فضل اللہ پیچوہو نے کھیلنے کا آغاز کیا تھا اس میں وہ اپنی پوسٹنگ بھی گنوا بیٹھا مگر سینکڑوں اساتذہ کو عدالت جانے پر مجبور کردیا اور پھر عدالتوں سے جو احکامات آئے وہ حکومت سندھ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔بڑے صاحب نے مجبور ہوکر فضل اللہ پیچوہو کے تبادلے کے احکامات جاری کیے اور پھر حکومت سندھ نے نصف ہیڈ ماسٹرز بھرتی کرکے اپنی جان چھڑالی، مگر اب بھی ایک چارج شیٹ تیار ہوگئی ہے ،جب بھی حکومت تبدیل ہوئی یا عام الیکشن ہوئے تو فضل اللہ پیچوہو کے خلاف یہ کیس نیب یا اعلیٰ عدالتوں میںضرور پیش ہوگا کہ کس قانون کے تحت براہ راست ہیڈ ماسٹر بھرتی کئے گئے اور سندھ پبلک سروس کمیشن کو کیوں بائی پاس کیا گیا؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں