ہلیری ای میل گیٹس۔ شفافیت کامعیارکیاہونا چاہیے
شیئر کریں
شہلا حیات
امریکی حکومت اور مختلف ممالک میں موجود امریکی سفارکاروں کی جانب سے مختلف ممالک کے سربراہوں اور اہم سرکاری اداروں اور شخصیات کی جاسوسی کا راز سب سے پہلے 2006 میں وکی لیکس کے ذریعہ افشا ہوا۔وکی لیکس کا منظر عام پرآنا اس دور کااپنی نوعیت کا منفرد اور حیرت انگیز واقعہ تھا ، اس کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے امریکی حکومت اور حکمرانوں کو تو شرمندگی کاسامناکرناپڑ اہی لیکن امریکا کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بعض ممالک کے رہنما اور بعض ممالک کی اہم شخصیات کے کالے کرتوت بھی منظر عام پر آگئے۔اس طرح کے راز سامنے آنے کے بعد ہرمعاملے میں شفافیت کے مطالبات زور پکڑ گئے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ شفافیت کا معیار کیا ہونا چاہئے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب دینا بہت مشکل ہے ،کیونکہ بظاہر کسی بھی بات یافیصلے کو پوشیدہ رکھنا یا پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرنا شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے لیکن بعض حالات میں اس طرح کی شفافیت ملک وقوم کیلیے بے انتہا نقصاندہ بلکہ تباہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے اس لیے اس کو راز میں رکھناہی حکومت اور قوم دونوں ہی کیلیے مفید ہوتاہے ۔اس صورت میں اس طرح کے عمل کو راز میں رکھنے کی کوشش کو شفافیت کے اصول کی پامالی قرار نہیں دیاجاسکتا۔
وکی لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد سب سے پہلے تو ہر ایک ششدر رہ گیا پھر سب کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ امریکا کے خفیہ راز افشا ہوجانے سے کس پر کیا فرق پڑے گا ،وکی لیکس کے ذریعے ایک ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں عراق پر امریکی حملے کے بعد وہاں موجود امریکی فوجیوں کی کارروائیاں اورعراق میں موجود امریکی حکام کی کارستانیوں سے بھی پردہ اٹھ گیا اس ویڈیو کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں یہ محسوس ہوتاتھا کہ امریکا عراق میں جنگی جرائم کامرتکب ہوا ہے۔
وکی لیکس کے بعد دوسرا بڑا انکشاف امریکا کی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ہلیری کلنٹن کی بعض ای میلز کے بارے میں تھا جس میں اس راز سے پردہ اٹھایاگیا کہ ہلیری کلنٹن نے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے ای میلزکیلیے سرکاری ای میل ایڈریس استعمال کرنے کے بجائے بعض اہم ای میلز اپنے ذاتی ای میل ایڈریس سے کیں ،بظاہر یہ کوئی بڑا جرم معلوم نہیں ہوتالیکن ہلیری کلنٹن کے مخالفین کااستدلال ہے کہ ہلیری کلنٹن نے سرکاری پیغامات اوراحکامات کیلیے ذاتی ای میل ایڈریس استعمال کرکے جان بوجھ کر یا انجانے میں اس ملک کی سلامتی کو داﺅ پر لگایا تھا ، اگر ہلیری کلنٹن نے اپنے ای میل ایڈریس سے کسی سرکاری اہلکار یا امریکا کے کسی مخالف ملک میں تعینات کسی امریکی سفیر کو کوئی خفیہ پیغام بھیجا ہوتا اور کوئی ہیکر اس دوران ان کا کمپیوٹر ہیک کرلیتا تو یہ راز دشمن ملک تک پہنچ سکتاتھا جس سے امریکی مفادات اور سلامتی داﺅ پر لگ جاتی۔یہی وجہ ہے کہ یہ انکشاف ہوتے ہی امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے کسی بھی جانب سے کسی مطالبے کاانتظار کئے بغیر اس معاملے کی فوری تحقیقات کا آغاز کیا ۔لیکن ایف بی آئی کی رپورٹ ناقدین کو مطمئن نہیں کرسکی، جس کی وجہ سے ایف بی آئی نے ناقدین کے عدم اطمینان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ایف بی آئی نے ایک بند کیس کھولنے کا یہ اعلان ایک ایسے وقت کیاہے جب امریکا میں صدارتی انتخابا ت کیلیے ووٹنگ کا عمل شروع ہونے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں کسی ایسی شخصیت کو ووٹ دے کر ایوان صدر نہیں بھیجنا چاہئے جو ملک کی سلامتی کیلیے خطرہ بن سکتاہو۔
وکی لیکس پر امریکی راز افشا کرنے پر لاپروائی برتنے اور ان معلومات یاراز کو منظر عام پر لاکر امریکا کی سلامتی اور امریکی حکومت کے اہلکاروں اور عہدیداروں کی جان خطرے میں ڈالنے کے الزامات عاید کیے گئے ۔ہوسکتاہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے وکی لیکس افشا کرنے والے شخص سنوڈن پر لگائے جانے والے یہ الزامات درست ہوں لیکن امریکی حکومت طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک اپنے اس دعوے کی صداقت ثابت کرنے کیلیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔اس طرح معلوم یہ ہوتاہے کہ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ اطلاعات اور معلومات کے تمام ذرائع یعنی تمام کھڑکیاں جن سے تازہ ہوا کے گزر کااندیشہ ہو بند کردی جائیں تاکہ حکومت کا ہر عمل ایک راز رہے اورعوام کو یہ پتاہی نہ چلے کہ حکومت کس محاذ پر کس ملک کے ساتھ کیا معاملات کررہی ہے اور اس کے کیا اچھے یابرے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔یہ درست ہے کہ تمام راز برے نہیں ہوتے اور ان کے منظر عام پر آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اپنے ہر عمل کو چھپانا یاپوشیدہ رکھنے کی کوشش کسی طرح بھی شفافیت کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ ہر عمل کو راز میں رکھنے کی حکمت عملی سے ظاہرہوتاہے کہ ارباب حکومت عام آدمی کو اپنی کسی کارروائی کی بھنک بھی پڑنے دینے کو تیار نہیں ہے ۔
یہ صورتحال ہمیں 1787 کی یاد دلاتی ہے جب امریکا کے بانی نے فلاڈلفیا میں شدید گرمی کے موسم میں سرکاری امور کی انجام دہی کرتے ہوئے اور سرکاری امور سے متعلق فائلوں پراحکامات صادر کرتے وقت کمرے کی تمام کھڑکیاں بند کراکے کھڑکیوں پر لگے بلائنڈ بھی بند کروادئے تھے تاکہ کمرے کے اندر ہونے والی کارروائی کا باہر موجود کسی بھی شخص کو کوئی پتہ نہ چلے اور کوئی راز یعنی اندر کی بات باہر کسی کو معلوم نہ ہوسکے۔ان کو خدشہ تھا کہ کسی بھی منصوبے کا قبل از وقت افشا ہوجانا حکومت اور مملکت کیلیے مناسب اورفائدہ مند نہیں ہوگا اور اس سے حکومت اور ارباب حکومت کیلیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں 1787 جیسی صورتحال نہیں ہے اب کسی بھی بات کو زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رکھاجاسکتا۔آج کے دورمیںارباب حکومت اس کو شفافیت کہتے ہیں جو کہ دراصل شفافیت نہیں بلکہ اس کی زد ہے۔ایک دور تھا جب حکومت کا کم وبیش ہر اعلیٰ عہدیدارخواہ وہ مرد ہویاخاتون اپنی روزمرہ کی تمام مصروفیات کی تفصیلات اپنی ذاتی ڈائری میں نوٹ کرلیتا تھا لیکن اب کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو ایسا کرتاہو۔فرینکلن روز ویلٹ کی زندگی کے آخری چند ماہ کی مصروفیات کاپتہ ان کی لکھی ہوئی خفیہ ڈائری کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے چلاتھا۔لیکن صرف قدیم ڈاکومنٹس یا کسی ای میل میسج کی بنیاد پر کسی ملک اور اس کے رہنما کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلینا بھی مکمل طورپر شفافیت نہیں ہے۔