سندھی زبا ن کے عظیم شاعر ۔۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی(شخصیت،فکر اور فلسفہ)
شیئر کریں
ایک روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کے بعد ب پڑھنے سے انکار کر دیا مگر یہ درست نہیں کیونکہ شاہ صاحب سندھی زبان کے علاوہ عربی ،فارسی اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے
بھٹ شاہ کو آباد کرنے کے چند سال بعد آپ نے سفر حج اور زیارات نجف و کربلا کے لیے سفر شروع کیا ۔اس مقصد حیات کو پورا کر نے کے بعد آپ مکمل طور پر گوشہ نشین ہو گئے
محمدساجد
شاہ عبداللطیف بھٹائی1690ءمیں قصبہ ہالا ضلع حیدر آباد ،سندھ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد سید حبیب علاقے کے پارسا اور با کردار انسان تھے ۔انہوں نے ہالا سے گاﺅں کوٹری کی طرف ہجرت کی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کوٹری کے ایک مدرسے آخوند نور محمد میں تعلیم کا آغاز کیا ۔یہاں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ شاہ صاحب نے الف کے بعد ب پڑھنے سے انکار کر دیا ۔مگر ریسرچراس روایت کو معتبر نہیں مانتے ۔کیونکہ شاہ صاحب سندھی زبان کے علاوہ عربی ،فارسی اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے ۔
سفر زیست میںشاہ صاحب کوہر دو عشق کا سامنا کر نا پڑا ۔پہلا عشق مجازی اور دوسرا عشق حقیقی ۔آپ کو بھٹ شاہ کے مرزا مغل بیگ کی صاحب زادی سے عشق مجازی ہوا۔ اس واردات عشق نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اس عشق کی خاطر آپ نے اپنا گھربار چھوڑا اور جنگل کی طرف چلے گئے ۔تین سال صحراو بن میں گھومتے رہے۔اسی عالم سیر میں ٹھٹھہ جا پہنچے ۔وہاں ایک صوفی برزگ محمد معین ٹھٹھوی سے ملے۔انہوں نے تپیدہ قلب پر بام لگایا اور عشق مجازی سے عشق حقیقی پر ڈالا ۔انہوں نے آپ کے اندر عبادت الٰہی ،ریاضت کی لگن، اولیاءسے محبت ، والدین کی اطاعت، انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا ۔اسی جذبے نے آپ کو والد کی خدمت میں پہنچا دیا۔آپ اپنے والد سے ملے تو والد کو بہت خوش پایا۔ 1713ءمیں مرزا مغل بیگ نے اپنی بیٹی کو شاہ عبداللطیف کے نکاح میں دے دیا۔شادی کے بعد شاہ صاحب نے کوٹری سے پانچ میل دور پرفضا مقام بھٹ شاہ کو اپنا مسکن بنایا ۔1731ءمیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے والد سیدحبیب کا وصال ہوا تو تمام خاندان بھٹ شاہ آ کر مقیم ہو گیا۔
بھٹ شاہ کو آباد کرنے کے چند سال بعد آپ سفر حج اور زیارات نجف و کربلا کے لیے سفر شروع کیا ۔اس مقصد حیات کو پورا کر نے کے بعد آپ مکمل طور پر گوشہ نشین ہو گئے ۔اسی عالم میں آپ نے عبادات ،غور وفکر اور شعر و سخن کا سلسلہ اختیار کیا ۔ ان کی فکر اور فلسفے کو دنیا میں ایک نئی جہت ملی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی جوانی میں مظلوموں،دہقانوں،محنت کشوں اور فقیروں کو بہت قریب سے دیکھا ۔اسی لیے انہوں نے اپنی فکر اور فلسفے میں ان جذبوں کو فروغ دیا۔ ان کی شاعری میں ہمیں خدا شناسی اور انسان دوستی کا پیام ملتا ہے ۔ان کے اند ر انسانیت کا درد سرایت کرچکا تھا اسی لیے ہر مذہب اور مسلک کے لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہوتے،آپ کے پیغام کو سنتے اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔
بقول شاہ عبداللطیف بھٹائی
سولی پر جو چڑھنا جانے
پریت انہی کو راس
ان کے نین ہر دم روویں
یار نہ جن کے پاس
اونٹ سجائے ،گھنگرو باندھے
چھم چھم چھم ،چھمکارا لے
سکھیوشاہ لطیف کہے ہے
آئیں گے ساجن پیار لے
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اسی لیے بعض صوفیاءان کو اویسی سلسلہ سے منسلک سمجھتے ہیں جس میں کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ نے ایک ایسے مسلک کی بنیاد رکھی جو انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت ،تعصب اور نفرت سے بلند ہے ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 1752 ءمیں وصال فرمایا اور بھٹ شاہ میں سپرد خاک ہوئے ۔آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق خاص و عام ہے۔