میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایک ڈاکٹر ،ایک مولانا اور ایک امام

ایک ڈاکٹر ،ایک مولانا اور ایک امام

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

زریں اختر

ڈاکٹر ،جاوید احمد غامدی ، مولانا، امین احسن اصلاحی اور امام، حمید الدّین فراہی ۔ڈاکٹر غامدی کے استاذ مولانا اصلاحی اور مولانا اصلاحی کے استاذ یعنی استاذالاساتذہ امام حمیدا لدّین فراہی۔ہماری ان سے بنی جن کا شیوہ مذہب سے بیزاری تھی ۔ اب سمجھ میں آتاہے کہ یہ بیزاری مذہب سے نہیں بلکہ مذہب کی اس شکل سے تھی جو اس معاشرے میں مروج و مقبول ہے اور جس نے مذہب کی اصل صورت کو ہی نہیں بلکہ اس کی سیرت اور روح کو بھی مسخ کردیا ہے ۔ مذہب کی اس صورت کو ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام سے خون ملا اور تاحال کمک جاری ہے ۔
پہلے لگتا تھا کہ ادب ہی سب کچھ ہے، پھر سمجھ میں آیا کہ اصل میں تو فلسفہ تمام علوم کی ماں ہے ، بعد میں فرائیڈ بادشاہ بن گیا اور ادب و فلسفہ علم نفسیات کے درباری اور اس بعد کے بعد لسانیات کہ نفسیات کی بھی باپ اگرچہ صیغہ مونث رکھتی ہے۔ زبان اور اُسلوب نیوکلیئس قرار پائے باقی سب سیٹلائیٹ ۔جب ڈاکٹر صاحب کو سنا اور یہ پتا چلا کہ امام حمید الدّین فراہی کا تما م کام جو عربی زبان میں ہے،جن کاترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے کیاہے اور جس کا موضوع قرآن حکیم کی زبان اور اُسلوب ہے تو بس مجھے لگا جیسے اس خاک کو بالآخر اس کا خمیر مل گیا۔
میں ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کو سنتی ہوں ان کے شاگردوں کو نہیں،میں پہلے کتاب پڑھتی ہوں مقدمہ نہیں۔ قدرت اللہ شہاب سے متاثر نہیں لیکن شہاب نامہ کا ایک جملہ جو شہاب صاحب کو کسی کی نصیحت تھی اس مفہوم میں یاد رہ گیا قرآن کا ترجمہ پڑھو ،تفسیر نہیں ،اس لیے کہ تفسیر ایک خاص سمت ذہن کی رہنمائی کرے گی اور ترجمہ ایسے پڑھو جیسے یہ تم پہ اتارا گیاہو۔ مطلب یہ کہ تفسیر ابتدا میں نہ پڑھی جائے بلکہ ترجمہ کے معنی ازخود کھلنے دیں،اور ایسے پڑھو جیسے تم پہ اتارا گیاہو تویہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔
کتاب ہے ”حکمت ِ قرآن” ،تالیف امام حمید الدّین فراہی ،ترجمہ خالد مسعود ،ناشر دائرئہ حمیدیہ ،مدرستہ الاصلاح ، سرائے میر اعظم گڑھ ،تاریخ اشاعت اپریل ١٩٩٦ئ۔” حکمت ِ قرآن” میں سے یہ انتخاب اگرچہ موضوعی ہے لیکن میں استخراجی منطق کی قباحت کا جتنا تھوڑا بہت ادراک رکھتی ہوں تو اس سے ضرور بچی رہوں گی ۔ باب اوّل ”حکمت کا مفہوم”میں بیان ہے کہ ”مقاتل کی رائے میں علم اور اس کے مطابق عمل کا نام حکمت ہے۔لہٰذا جب تک علم اور عمل کسی آدمی میں جمع نہ ہوجائیںوہ حکیم نہیں ہوسکتا۔ حکمت کا علم رکھنے کے بعد اس کے مطابق عمل ضروری ہوتا ہے ۔جب تک حکمت کے ایک عالم کا عمل اپنے علم کے مطابق نہ ہو تو وہ حکیم نہیں ہوتا”۔
واوین میں بیان کردہ پارے کا پہلا جملہ کہ ‘علم اور اس کے مطابق عمل کا نام حکمت ہے’ ۔یہ جملہ ذہن کو علم ِ ابلاغیات میں پڑھائے جانے والے علم نفسیات کے اس نظریے کی طرف لے گیا جس کے مطابق اگر انسان کا عمل اس کے علم کے مطابق نہ ہو تو وہ ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔ انسان اس ذہنی انتشار سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ پیغام، جو پڑھنے ،سننے اور دیکھنے والے کے ،علم و عمل میں تضاد کی صورت میں پیدا ہونے والی کسی ذہنی الجھن کو کم یا ختم کرنے کا سبب بنے ، موثر ہے ۔
یہ سماجی علوم کے باہمی نظریاتی ربط کی مثال ہے ۔ علم اور عمل میں مطابقت کا نام حکمت ہے ۔ حکیم وہ کہلائے گا جو اس مطابقت کے اصول پر پورا اترے گا۔ کیا کروں کہ بیان کہیں سے کہیں جارہاہے ۔ ہمارے ہاں حکیم الامت بنا دیے گئے علامہ محمد اقبال ۔ علامہ اقبال بڑے شاعر ۔۔انہیں حکیم الامت بنادیا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ بس ہم ان کے بارے میں کھل کر حقائق بھی بیان نہیں کرپاتے ۔ ہمارا ان حقائق پر بات کرنے کا مقصد زبان کا چٹخارا نہیں ہے بلکہ اقبال کو ویسا سمجھنا ہے جیسے وہ تھے ۔
اس باب میں حکمت کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ایک سماجی مظہر جو میرے لیے حیران کن ہوتاتھا ،حکمت کی ایک خصوصیت کے بیان سے اس حیرت کا پردہ چاک ہوگیا۔ وہ یہ کہ ”دل کے اندر حکمت کوئی بہت ہی لمبی چوڑی ،باریک اور گہری چیز نہیں بلکہ نہایت ہلکی سی چیز ہوتی ہے اس لیے حکیم کو اس شخص کی حالت پر تعجب ہوتا ہے جس کو یہ حاصل نہیں ہوتی ۔ ۔۔۔حکمت کی بصیرت کوئی دور کی چیز نہیں جس کو حاصل کرنے کے لیے کسی بڑی گہرائی ،سوچ بچار اور علم کی ضرورت ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ تما م لوگوں میں لٹائی نہیں جاتی۔۔۔۔ لہٰذا اگر کوئی شخص چاہے تو کہہ سکتاہے کہ حکمت تمام واضح چیزوں سے واضح تر اور بدیہی ہے ۔ دل پر پردہ پڑ جائے تو آدمی کو اندھا بنا دیتا ہے۔ اس صورت میں نور کا کوئی قصور نہ ہوگا بلکہ قصور نگاہ کا ہوگا۔کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔
مجھے اس کتاب سے وہ نہیں ملا جس کی مجھے تلاش تھی میرے اندر سوالات بھی اٹھے اور تنقید میں آئی ۔ اب دوسری کتاب ”مقدمہ تفسیر نظام القرآن” سامنے ہے ۔ دل کو تسلی کی صورت بنی ہے ۔ بقول ڈاکٹر غامدی کہ اس تفسیر کا جو زاویہ نظرہے اس سے قبل کسی مفسر کے پیش نظر نہیں رہا۔ میری کوشش ہے کہ جمعے کے کالم کا یہ موضوع رکھوں۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں