15 رمضان المبارک یوم وفات سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ مورخہ 15رمضان المبارک سنہ3ھ میں پیدا ہوئے۔پیدائش کے ساتویں دن حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ نے آپ کا نام ”حسن“ رکھا، آپ کا عقیقہ کیا، اور آپ کے سر کے بال منڈوائے اور فرمایا کہ اِن بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی جائے۔
حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ شکل و صورت میں حضورِ اقدس سے بہت مشابہ تھے۔اربابِ سیر وتاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک ناف سے لے کر اوپر تک حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کے مشابہ تھا اور ناف سے لے کر نیچے تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بدن کے مشابہ تھا۔ اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا بدن مبارک ناف سے لے کر نیچے تک حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کے مشابہ تھا۔ اور ناف سے لے کر نیچے تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بدن مبارک کے مشابہ تھا۔
حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب احادیث مبارکہ میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں۔چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپؐ منبر پر جلوہ افروز ہیں اور حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف توجہ فرماتے اور کبھی اِن کی طرف۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:میرایہ بیٹا سردار ہے! اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان مصالحت کرا ئے گا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہوتے اور حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آتے، اورآپ صلی اللہ علیہ کی گردن مبارک یا پشت مبارک پر سوار ہوجاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اُتارتے نہیں تھے، بلکہ وہ خود ہی اُتر جاتے تھے،اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں ہوتے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اتارتے نہیں تھے، بلکہ وہ خود ہی اُتر جاتے تھے۔ اور میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں ہوتے تو اپنے پاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ کردیتے کہ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اُن کے درمیان سے دوسری طرف گزر جاتے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے ہیں اور یہ دُعا فرما رہے ہیں: ترجمہ: اے اللہ! میں اِس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(صحیح بخاری)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے کہا: ”اے صاحب زادے! تیری سواری بہت اچھی ہے۔“تو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:”سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
مستدرک حاکم کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے پیادہ پا پچیس حج ادا فرمائے، حالاں کہ اعلیٰ قسم کے اونٹ آپ کے ہم راہ ہوتے تھے، لیکن آپ اُن پر سوار نہیں ہوتے تھے، بلکہ پیادہ پا راستہ طے فرماتے تھے۔حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سخاوت و فیاضی میں انتہائی وسیع قلب تھے۔ بسا اوقات ایک ایک شخص کو ایک ایک لاکھ درہم عطا فرما دیتے تھے۔امام ابن سعدرحمہ اللہ حضرت علی بن زید رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے تین بار آدھا آدھا مال اور دو مرتبہ اپنا پورا مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔(تاریخ الخلفاء)
سنہ 40ہجری میں جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ کا سانحہئ شہادت پیش آیا تو اُس کے بعد حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے لوگوں نے منتخب کیا۔چونکہ اُمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی یاد تھی کہ: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کی بدولت مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔“، اِس لئے اکابر کوفہ کو حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات سے یہ توقع تھی کہ اُن کی خلافت مسلمانوں کے لیے بڑی بابرکت ثابت ہوگی۔ اِس لئے وہ آپؓ کی بیعت خلافت پر فوراً متفق ہوگئے۔ حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے اُن کی فرمائش پر پہلے تو سکوت اختیار فرمایا، مگر پھر اُمت کی مصلحت کے پیش نظر اُنہیں بیعت فرمالیا، چنانچہ سب سے پہلے کوفہ کے سالارِ لشکر حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپؓ کی بیعت کی، اور اُس کے بعد دوسرے حضرات آپؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت سے مشرف ہوئے۔(البدایہ والنہایہ)
حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔چالیس ہزار اہلیانِ کوفہ نے آ پ کے دست پر بیعت کی، جس کے بعد چھ ماہ تک آپؓ منصب خلافت پر فائز رہے، اور اُس کے بعد آپ نے خلافت کی باگ ڈور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھما دی اور خود خلافت سے دست بردار ہوگئے۔(تاریخ الخلفاء)
حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہٗ عمر بھر مدینہ منورہ میں رہے۔ سنہ49ھ میں جب آپ کی عمر ستاون برس ہوئی تو آپ کو دُشمنوں کی طرف سے زہر دیا گیا، جس کی وجہ سے کچھ دن کے بعد آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ نمازِ جنازہ کے لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو آگے کیا۔ اُس کے بعد حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔انا للہ ونا الیہ راجعون۔
اِس موقع پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبویؐ میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ”لوگو! آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا چل بسا۔“ یہ سن کر حاضرین مجلس میں سے کوئی شخص اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا۔(البدایہ والنہایہ)حضرت حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات مستعار میں جس بے مثال ہمت و جواں مردی اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ اسلام کا ایک رُوشن باب ہے۔ بلاشبہ انتشار و افتراق کے زمانے میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اُن کو باہم متحد کرنے اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنا دامن بچا بچاکر چلنا بڑا جان
جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
ژ……ژ……ژ