میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سنتاجا شرماتاجا‘باغ ابن قاسم کے نام پر بے رحمانہ کرپشن،پی پی وزرا نے 25کروڑ ہڑپ کرلیے

سنتاجا شرماتاجا‘باغ ابن قاسم کے نام پر بے رحمانہ کرپشن،پی پی وزرا نے 25کروڑ ہڑپ کرلیے

ویب ڈیسک
بدھ, ۵ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

سراج درانی ، اویس ٹپی،شرجیل میمن اور جام خان شورو نے اس کی دیکھ بھال کے نام پر اسکی تباہی میں دل کھول کرحصہ لیا،تحقیقاتی ادارے خاموش
2008ءسے اب تک پانچ نجی اداروں کو باغ ابن قاسم ٹھیکے پر دیاگیا، مگر باغ ابن قاسم کی حالت پھر بھی سدھرنہ سکی،ملک ریاض نے قدم پیچھے ہٹا لیے
الیاس احمد
سابق صد رپرویز مشرف نے کراچی میں بعض ترقیاتی منصوبے ذاتی دلچسپی لے کر شروع بھی کرائے اور مکمل بھی کرائے ۔ان میں ایک منصوبہ باغ ابن قاسم ہے جس پر ایک ارب روپے سے زیادہ خرچ کیاگیااور ایسا خوبصورت باغ بنادیاکہ دیکھنے والے مسحور کن کیفیت میں مبتلا ہوجاتے تھے ۔پرویز مشر ف نے اس وقت کے گورنرعشرت العباد اور سٹی ناظم مصطفی کمال کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ اس باغ کی دیکھ بھال بہتر انداز میں کریں،اور اگر انہیں اضافی فنڈز کی ضرورت ہوتو وہ بھی فراہم کیاجائے گا۔2008 ءمیں جیسے ہی پی پی پی کی حکومت آئی، اس باغ کی تباہی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ اگر باغ پر توجہ نہ دی جاتی اور باغ تباہ ہو جاتاتو بھی کسی حد تک قابل برداشت تھا،مگر الٹا اس باغ کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے 9سال میں 25کروڑ روپے بھی سرکاری خزانے سے نکال کر اپنی جیبوں میں ڈال لیے گئے ۔آغا سراج درانی ،سید اویس مظفر ٹپی،شرجیل انعام میمن اور جام خان شورو نے باغ ابن قاسم کو دل کھول کرتباہ کیااور اس کے نام پر 25کروڑ روپے اپنی جیبوں میں ڈالے ۔2008ءسے لے کر 2017ءکے پہلے تین مہینوں تک پانچ ٹھیکیداروں یا نجی اداروں کو باغ ابن قاسم ٹھیکے پر دیاگیااور پھر کیا ہوا،ا س کی ر قم وزراءکے پاس چلی گئی مگر باغ ابن قاسم کی حالت پھر بھی سدھرنہ سکی، اس کی پرواہ بھی ان وزراءکو نہ تھی۔سید اویس مظفر ٹپی زمین پر خدابنے بیٹھے تھے ا و ر ان کو کچھ کہنا آصف زرداری سے دشمنی مول لینے کے مترادف تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے جب رسی کھینچی تو ٹپی کو دبئی میں پناہ ملی اوران کی طاقت ،غرور اور ٹھاٹھ باٹھ مٹی میں مل گیااو ر وہ آج کل دبئی میں ایک ڈیپا رٹمنٹل اسٹور چلاتے ہیں۔ آغا سراج درانی بھی محکمہ بلدیہ کا بیڑہ غرق کرکے اسپیکر سندھ اسمبلی بنے بیٹھے ہیں۔وہ نیب ، اینٹی کرپشن کی تحقیقات سے بچے ہوئے تو ہیں لیکن انہوں نے وزیر بلدیات کی حیثیت سے 12ہزار سے زائد غیر قانونی بھرتیاں کیںجن کی تحقیقات نیب مکمل کرچکی ہے ۔اسی طرح شرجیل میمن بھی کھاپی کردبئی اور لندن چلے گئے ،وہاں کا روبار سیٹ کیاجب وہاں سے فارغ ہوئے تو وطن واپس آگئے ۔ان کولندن کے ایک ہوٹل سے مرادعلی شاہ،منظور وسان ،مکیش چاولہ کے ساتھ نکلتے ہوئے کچھ لوگوں نے جو کچھ سنایاتھا،وہ اب بھی سوشل میڈیا پرموجود ہے۔ اس کے بعد تو شرجیل میمن کو شرم کے مارے وطن واپس بھی نہیں آنا چاہئے تھا،مگر کیاکریں،یہ چیزیں تو ضمیر والوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ جن کے ضمیر مردہ ہوجائیں ،ان کے لیے گالی ، طعنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جام خان شور وکا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔موصوف کو جو حکم زرداری ہاو¿ س سے ملتاہے اس پر مکمل عمل کرتے ہیں۔ان چاروں نے مل کر باغ ابن قاسم کو اجاڑ دیا۔مگر اپنے جیب دل کھول کر بھر لیے۔
اب حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ باغ ابن قاسم بحریہ ٹاﺅن کو دیا جائے گا ۔ اور یہ بھی مضحکہ خیر بات کہی گئی کہ باغ ابن قاسم پر کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ کے ایم سی دے گی ۔ بھلا حکومت سندھ سے کوئی پوچھے کہ باغ جب بحریہ ٹاﺅن کے حوالے ہوگا توتنخواہ بھی بحریہ ٹاﺅن کو دینی چاہیے تنخواہ کے ایم سی کیوں دے؟ اور پھر یہی ہوا میئر کراچی وسیم اختر نے اعلان کیا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ میں جائیں گے کہ ایسا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بحریہ ٹاﺅن کے چیئرمین ملک ریاض نے اعلان کر دیا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق سے اس باغ کی دیکھ بھال کریں گے اور اس کا کنٹرول سنبھالیں گے اگر تمام اسٹیک ہولڈر راضی نہیں ہوتے تو وہ اس باغ کا کنٹرول نہیں لیں گے ۔ یوں حکومت سندھ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حکومت سندھ کو اپنے کیے گئے فیصلے پر شرمسار ہونا پڑا ہے ۔ باغ ابن قاسم مکمل طور پر ویران ہوگیا ہے کیونکہ اس کے آباد ہونے سے پیپلز پارٹی کے وزراءکو کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کو تو صرف پیسہ کمانے سے غرض ہے۔ چار پانچ مرتبہ نجی اداروں کو باغ ابن قاسم دیا گیا مگر کسی ایک بھی ادارے سے یہ نہ پوچھا گیا کہ انہوں نے باغ ابن قاسم کو آباد کیوں نہ کیا؟ پی پی کے وزراءنے اس باغ کو تفریح گاہ کے طور پر بحال کرنے میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں لی مگردیکھ بھال کے نام پر سرکاری خزانہ سے 9 سال کے دوران 25 کروڑ روپے نکلوالیے ہیں جس کی تحقیقات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے،نیب نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے،محکمہ اینٹی کرپشن بھی سویا ہوا ہے۔ چلو اس باغ کے نام پر وزراءکے جیبوں میں 25 کروڑ روپے چلے گئے، وہ بیچارے غریب تھے ان کا چولہا جلا تو خیر ہے۔ سرکاری خزانہ کا کیا ہے ، مزید 25 کروڑ روپے آجائیں گے۔ باغ بھلا وزراءکو کیا دے گا؟ ان کو اگر سیرو تفریح کرنی ہوگی تو وہ لندن اور دبئی جائیں گے۔ جہاں تفریح بھی ہوگی اور عوام کی گالیاں بھی کھانی پڑے پھربھی وہ ڈھٹائی کے ساتھ واپس آکر ہم جیسے بے زبان عوام پر حکمرانی کرکے سکون محسوس کریں گے ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں