سیاچن میں انڈین فوجیوں کو خوراک ا،کپڑوں کی کمی کا سامنا، سرکاری رپورٹ میں انکشاف
شیئر کریں
دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن پر بھارتی فوج کو سہولیات کی عدم فراہمی کا سچ بھارتی میڈیا سامنے لے آیا، فوجیوں کے پاس لباس ہے نہ ہی بہتر غذا جبکہ چشموں کی بھی 98 فیصد تک قلت ہے ۔ چار سال سے نئی وردیاں بھی نہیں ملیں،بھارتی میڈیا کے مطابق جس وقت انڈین وزیراعظم نریندر مودی دلی کے کڑ کڑ ڈوما علاقے میں انڈین فوج کی حالت سدھارنے کا دعوی کرتے ہوئے اپنی کمر تھپتھپا رہے تھے اسی وقت سیاچن، لداخ اور ڈوکلام میں موجود انڈین فوجیوں کو خوراک کی کمی، برف پر چمکتی تیز دھوپ سے بچنے کے لیے لگائے جانے والے خاص چشمے اور جوتے تک نہ مل پانے کی خبریں سامنے آئیں،18 سے 32 ہزار فٹ بلندی والے سیاچن اور دوسرے برفیلے فارورڈ پوسٹ میں جوانوں کے پاس ان چیزوں کی کمی کی بات کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل یعنی سی اے جی کی تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے جسے کچھ دن پہلے ہی ایوانِ بالا میں پیش کیا گیا تھا۔انڈیا میں سی اے جی آڈٹ کا مرکزی سرکاری ادارہ ہے ۔انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر موجود سیاچن فارورڈ پوسٹ انڈیا کے لیے حفاظی نقطتہ نظر سے بہت اہم پوسٹ ہے ۔سی اے جی)نے رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاچن سمیت مختلف برفیلے علاقوں میں تعینات بھارتی فوجیوں کو موسم سرما کے خصوصی لباس، دیگر لوازمات اور غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ سی اے جی نے پارلیمان میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اس نے فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج بلندی پر تعینات اپنے فوجیوں کو مخصوص لباس، راشن اور رہنے کی مناسب جگہ مہیا کرانے میں ناکام رہی ہے ۔وزارت دفاع نے کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا(سی اے جی)کو بتایا ہے کہ ان خامیوں کو دور کیا جائے گا لیکن منگل کی صبح سے ہی سیاچن انڈین سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے ۔اخبار دی ہندو میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا(سی اے جی)کی یہ رپورٹ 16-2015 سے 18-2017 کے درمیان فوج کو سہولیات فراہم کیے جانے کے حوالے سے ہے ۔کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلندی پر پہنے جانے والے لباس اور وہاں استعمال ہونے والے سازو سامان کی فراہمی میں تقریبا چار سال کی تاخیر کے سبب فوجیوں کے پاس ضروری کپڑے اور سازو سامان کی سخت قلت ہو گئی ہے ۔ برف میں لگانے کے لیے چشموں کی شدید قلت ہے ۔ یہ قلت 62 سے 98 فیصد تک ہے ۔رپورٹ کے مطابق فوجیوں کو مختلف کاموں میں استعمال ہونے والے بوٹ بھی نومبر 2015 سے ستمبر 2016 تک جاری نہیں کیے گئے اور انھیں اپنے پرانے بوٹوں سے کام چلانا پڑ رہا ہے ۔ایک فوجی افسر نے دی ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ہے کہ سیاچن میں تعینات ایک سپاہی کے لباس پر ایک لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے ۔سوشل میڈیا پر ایک صارف محمد فیصل علی کا کہنا تھا کہ مسٹر نریندر مودی کیا آپ آج تک کے سب سے زیادہ فوج نواز وزیراعظم نہیں ہیں؟ پھر آپ کے دور حکومت میں ایسا کیونکر ہوا؟انھوں نے مزید لکھا کہ آپ لاکھوں کے سوٹ پہنتے ہیں، مشروم کھاتے ہیں لیکن آپ کے فوجی سیاچن میں پریشانیوں کا شکار ہیں۔ سی اے جی نے ملک کے مخالفین کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ مودی جعلی وطن پرست ہیں۔کانگریس رہنما سوپریا سولے نے ٹویٹ کی کہ سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق سیاچن، لداخ اور ڈوکلام میں فوجیوں کو مناسب کھانا، کپڑے اور ضروری سامان نہیں مل رہا اور 2015 سے ہمارے فوجیوں کو جوتے تک نہیں ملے ہیں۔اس ٹویٹ کے جواب میں ڈینس سی کورین نامی ایک صارف نے لکھا کہ لیکن ان کا استعمال موجودہ حکومت پروپیگینڈے میں ضرور کرتی ہے ۔واٹس ایپ یونیورسٹی نامی صارف نے لکھا کہ بی جے پی خود کو قوم پرست پارٹی کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ یہ لوگ انڈیا سے زیادہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یوگی نے کل 48 سیکنڈ میں آٹھ بار پاکستان کا نام لیا۔ اور سیاچن میں فوجیوں کو کپڑے اور غذا کی قلت کا سامنا ہے ۔اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ہی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فوجیوں کی حالت کو بہتر بنانے کا دعوی کیا تھا۔خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاچن دنیا کی سب سے بلند سرحد ہے اور یہ دونوں ممالک کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم مقام تصور کیا جاتا ہے ۔فوج کے سربراہ نے بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ سی اے جی کی رپورٹ میں 2015 اور 16 کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے جو اب پرانی بات ہو چکی ہے ‘میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ آج ہم پوری طرح تیار ہیں۔ اور ہم اس بات کو یقین بنائیں گے کہ جوانوں کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھا جا ئے ۔فوج کے سابق میجر جنرل اشوک مہتہ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کے سی اے جی کی رپورٹ میں جو کہا گیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کے لیے تیار نہیں ہیں۔حالانکہ جنرل اشوک مہتہ نے یہ بھی کہا کہ جوانوں کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کمی پہلے بھی رہی ہے اور فوج کے پاس ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی کمی کا معاملہ واضح طور پر 1999 کی کارگل جنگ کے وقت سامنے آیا تھا۔کارگل کے سولہ سال بعد جنرل وی پی ملک نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ حالانکہ حالات تب سے بہتر ہیں لیکن فوج آج بھی اسلحہ اور دیگر سازو سامان کی کمی سے پریشان ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی کے سبب فوج کو ان چیزوں کی قلت کا سامنا ہے حالانکہ حکومت ہر سال بجٹ میں فنڈز میں اضافے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ایکسچینج ریٹ اورقیمتوں میں اضافے کے سبب فنڈز ناکافی ہوتے ہیں۔گذشتہ دنوں مشہور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کے 90 ہزار جوانوں کو پیسوں کی کمی کے سبب کئی طرح کی سہولیات نہیں مل سکیں۔سی اے جی کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوانوں کو جو جوتے مل رہے ہیں وہ پرانے ہیں اور برف کے خاص چشموں کی کمی بھی سنجیدہ معاملہ ہے ۔سیاچن پر زندگی بہت سخت ہوتی ہے اور وہاں صحت مند خوراک اور دیگر سازو سامان کے بغیر رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔