میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلا چھیننے کا متنازع عدالتی فیصلہ اور تحریک انصاف کا سپریم کورٹ سے رجوع

بلا چھیننے کا متنازع عدالتی فیصلہ اور تحریک انصاف کا سپریم کورٹ سے رجوع

جرات ڈیسک
جمعه, ۵ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

تحریک انصاف کو ایک بار پھر ایک عارضی مگر نازک صورت حال سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کو ایک مرتبہ پھر اُس کے انتخابی نشان ”بلے“ سے دور کردیا ہے۔ کسی ابہام کے بغیر اِسے ایک متنازع عدالتی فیصلہ سمجھا جا رہا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے ۳/ جنوری کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس میں الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا۔ جسٹس اعجاز خان نے عدالتی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔ جس میں الیکشن کمیشن کے وکیل اور تحریک انصاف کے سینئر وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے عدالت میں کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہیں۔جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ ہم نے آپ سے سیکھا ہے کہ قانون کے لیے یہ باتیں بے معنی ہیں، عدالت سے باہر کیا ہوتا ہے اس کا سماعت کے ساتھ کچھ کام نہیں۔قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس کی بھاری نفری موجود ہے، ادھر آتے ہوئے مجھے روکا گیا، میری تلاشی لی گئی، کیا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت آ سکتا ہے؟ ان کی رٹ ٹھیک نہیں ہے، ۶۲/دسمبر کو فیصلہ آیا، اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے اب تک ویب سائٹ پر انٹرا پارٹی انتخابات سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی جانب سے کوئی توہین عدالت کا کیس آیا ہے؟قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے جس پر الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ جس پر جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ ڈالنے سے کیا مسئلہ ہے؟ ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے۔پشاور ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔عدالت نے چند گھنٹوں بعد محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کی اور الیکشن کمیشن کا ۲۲/دسمبر کا فیصلہ بحال کر دیا۔عدالت کے متنازع فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بلے کا نشان لیاتو دنیا انتخابی نتائج نہیں مانے گی۔ انھوں نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں فوری چیلنج کرنے کااعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ بلے کانشان نہ ملا تو پلان بی پرغور ہوگا۔
پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرثانی اپیل کا مذکورہ فیصلہ متوقع تھا۔ کیونکہ پشاور ہائیکورٹ کورٹ کی جانب سے ۶۲/ دسمبر کو جس فیصلے سے بلے کا انتخابی نشان بحال کیا گیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے جو سرگرمیاں دیکھی گئی وہ نظام کی کل حرکت کے عین مطابق تھی جو تحریک انصاف کو ہر طرح سے انتخابی میدان سے نکال باہر کرنے کی غماز تھیں۔ چنانچہ الیکشن کمیشن میں ایک اجلاس کا چرچا ہوا جس میں اس فیصلے کاانکشاف ہوا کہ عدالتی فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔ عام طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کے جو فیصلے لیے جاتے ہیں وہ بجائے خود فیصلہ ساز قوتوں کے پس پردہ کسی حکمت عملی کے عکاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے ۶۲/ دسمبر کے فیصلے پر کسی طرح سے کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔ جس کا ذکر تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت میں کرتے ہوئے کہا کہ یہ توہین عدالت ہے۔ یعنی ۶۲/ دسمبر سے ۳/ جنوری تک خود پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے روبہ عمل نہ آسکا۔ یہاں تک کہ ۳/ جنوری کو نظرثانی کی اپیل منظور کرتے ہوئے حکم امتناع ہی واپس لے لیا گیا۔ پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے ایک ہی معاملے میں فیصلے کے الٹ پلٹ کے اس پیچیدہ عمل سے قانونی سانچے اور انصاف کے پورے ڈھانچے پر ایک عمومی سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ذہن، منطق اور شعور کی سب سے اعلیٰ صلاحیت کو انصاف کے لیے قانون کی تنظیم میں صرف کیا جاتا ہے۔ مگر یہ پھر بھی حالات کے کسی بڑے الٹ پھیر کے بغیر الگ الگ اور متصادم فیصلوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس صورت میں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کسی بھی فیصلے کے لیے فرق اس سے نہیں پڑتا کہ قانون کیا ہے؟ بلکہ اس سے پڑتا ہے کہ جج کون ہے؟ یوں انصاف کا یہ پورا محل زمیں بوس محسوس ہوتا ہے۔ اس مخصوص پیچیدہ منظرنامے میں مزید دھند اس وقت پڑتی ہے جب عمومی طور پر یہ سوالات قانونی سے زیادہ طاقت کے محور پر متعین فیصلوں کی حرکت سے پیدا ہوتے ہوں۔ یعنی ایک ہی طرح کے حالات میں ایک جماعت سے ان کی اپنی جماعت کے انٹرا پارٹی کے حوالے سے سوالات پوچھے جاتے ہوں اور دوسری تمام جماعتوں کی طرف رخ بھی نہ کیا جاتا ہو۔ پھر اس میں یہ امتیاز بھی نہ ہو کہ سوال اُٹھانے والے کے پاس اپنی اخلاقی اور قانونی طاقت کے ساتھ ساکھ کتنی ہے؟اس تناظر میں عدالتی عمل مخصوص قوتوں کے رہین منت محسوس ہوتا ہے۔ یہ انصاف تک پہنچنے سے زیادہ جبر کو مسلط کرنے کا مکروہ حصہ لگتا ہے۔ بلے کے حوالے سے الٹ پلٹ فیصلے اور اس کے اگلی قانونی مرحلوں میں آنے والے تمام متوقع فیصلوں کا یہی تناظر باقی رہ جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس پورے متصام اور متنازع عدالتی و سیاسی منظر نامے کا نقد نقصان تو یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات منعقد ہونے سے پہلے متنازع ہو گئے ہیں۔ پھر ان انتخابات کو کرانے والے تمام ہاتھ بھی تعصبات کی کیچڑ سے لَتھڑ گئے ہیں۔تحریک انصاف پر کسی بھی قسم کا اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر اس کے مقبول عام جماعت ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ یہاں تک کہ خود الیکشن کمیشن سمیت طاقت ور حلقوں کے ان متنازع فیصلوں میں بھی یہ خجالت آمیز اعتراف موجود ہے کہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت یہی ہے، اسی لیے تو اس کے خلاف یہ اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اُسے انتخابی نشان تک سے محروم کیا جارہا ہے۔اب تحریک انصاف کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں۔ ایک پشاور ہائیکورٹ میں ڈویژنل بینچ اور دوسرا سپریم کورٹ۔ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے شیڈول کے جبر میں یہ مشکل ہے کہ ڈویژنل بینچ اور پھر سپریم کورٹ کے مرحلہ وار فیصلوں کا آرام سے انتظار کیا جائے۔چنانچہ تحریک انصاف نے پشاور کی ڈویژنل بینچ کا انتظار کرنے سے زیادہ سپریم کورٹ سے فوری رجوع کو ترجیح دی ہے اور گزشتہ روز (۴ / جنوری) سابق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے جج نے قانون کی غلط تشریح کی جس کے باعث ناانصافی ہوئی، 26 دسمبر 2023 کو عارضی ریلیف دیا گیا تھا۔پی ٹی آئی کی درخواست میں مزید کہا گیا کہ عارضی ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں، ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ’بلے‘ کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔درخواست میں سپریم کورٹ سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور اپیل کو کل جمعہ کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے اس درخواست کی فوری شنوائی کی استدعا ہی اب بلے کے انتخابی نشان کے لیے واحد آسرا رہ گیا ہے۔ جس پر انتہائی کم بھروسا کیا جا سکتا ہے کیونکہ تحریک انصاف کو الگ تھلگ کرنے اور حجم سے کمتر بنانے کی کوشش روزِ روشن کی طرح عیاں و عریاں ہیں۔ اس دوران میں سپریم کورٹ انصاف کی آخری امید کے بجائے ہر امید کی آخر لحد بنتی جا رہی ہے۔ یہ سمجھنا ذرا بھی دشوار نہیں کہ یہ ساری صورت حال جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے کتنی مخدوش ہے۔
تحریک انصاف کے پاس اب اس پورے کھیل میں واحد حکمت عملی یہ باقی رہ جاتی ہے کہ ہرقانونی دروازے کو کھٹکھٹا کر اس پورے کھیل کو عریاں کرتا جائے، جو پہلے ہی اپنی کم لباسی کے باعث شرمناک ہو چکا ہے۔ یہ اس کے لیے محض جبر کوبے نقاب کرنے اور اپنے خلاف اداروں کی منظم سازشوں کو دستاویزی بنانے کی مرحلہ وار مشقیں ہیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اس پورے کھیل کو پوری طرح سمجھنے کے باوجود انتخابات کے بائیکاٹ کا نہیں سوچ رہی۔ بلکہ اس جماعت نے بہر صورت، بہر حال اور بہر کیف انتخابی عمل میں شریک ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ اس طرح تحریک انصاف اپنے آج سے ہی نہیں بلکہ ماضی کو بھی سمجھنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کو اب یہ اندازا ہوتا جارہا ہے اور پشاور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے سے پارٹی کے سابق چیئرمین بن جانے والے بیر سٹر گوہر علی نے واضح بھی کیا کہ اُن کی جماعت کو ایک انتخابی نشان سے الیکشن نہ لڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور یوں پارٹی کے اجتماعی وجود کو الگ الگ نشانوں سے تحلیل کرنے کی سازش کا اُسے سامنا کرنا ہوگا۔ یہ صورتِ حال پہلے سے متنازع ہوجانے والے انتخابات کو ہی نہیں بلکہ متنازع انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی ممکنہ اسمبلی کو بھی پہلے سے ہی فلورکراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کے خطرے سے مستقل دوچار کر دیتی ہے۔ یہ سازش تو تحریک انصاف کو انتشار کی حالت میں رکھنے کے لیے ہے مگر اس سے آئندہ کی پارلیمنٹ اور حکومت بھی مستقل دباؤ اور اعتبار کے مسئلے سے دوچار رہے گی۔ یہاں امید کے برخلاف یہ امید کی جاسکتی ہے کہ انصاف کی اونچی بارگاہ نچلی ہو کر نہ بیٹھے گی اور بیلٹ کے تحلیل ہوتے تقدس کو برقرار رکھنے کی اپنی سعی کرے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کا موقع دیتے ہوئے انصاف کے سورج کی کرنیں بھی یکساں تقسیم ہونے دے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں