میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسدی فوج بے لگا م ،جنگ بندی کے باوجود بمباری،حلب : گھروں میں گھس کر خواتین وبچوں کا قتل عام

اسدی فوج بے لگا م ،جنگ بندی کے باوجود بمباری،حلب : گھروں میں گھس کر خواتین وبچوں کا قتل عام

منتظم
بدھ, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

فتح کے جشن میں 200عام شہریوں کو تہہ تیغ کیا گیا، جس فوج نے گھروں میں گھس کر خواتین اور بچیوں کو قتل کیا
وہ اگر ’محفوظ راستہ“ دینے کی بات کرے تو اس پر کیسے یقین کیا جائے ؟حلب کے شہریوں کی سوشل میڈیا پر دہائی
ابو محمد
شام کی ریاستی میڈیا اور شامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شامی فوج اور اتحادی ملیشیا نے شیخ سعید اور صالحین کے اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق شامی باغیوں کا 90 فیصد حلب پر سے کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حلب کے محاصرے کے باعث ہزاروں افراد شہر میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے پاس نہ تو پانی ہے اور نہ خوراک۔فتح کی خوشی میں شامی فوجیوں اور اتحادیوں نے گھروں میں گھس کر شہریوں کا قتل عام کیا ۔
گزشتہ روز باغیوں اور شامی فورسز کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا تاکہ مختلف علاقوں میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا وقت مل سکے۔
محصورین کا انخلاءبدھ کی صبح شروع ہونا تھا تاہم شامی مبصر تنظیم برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر رمی عبدالرحمٰن نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حکومتی فورسز نے باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں دوبارہ بمباری شروع کردی۔
انہوں نے بتایا کہ حکومتی افواج نے کم سے کم 14 شیل فائر کیے اور ان علاقوں میں بھی بمباری سنی گئی جو باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان فرنٹ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔گزشتہ روز یہ طے ہوا تھا کہ انہیں محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا موقع دیا جائے گا اور اس دوران بمباری یا شیلنگ نہیں کی جائے گی۔
یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ حلب میں حکومتی کنٹرول مضبوط ہونے کے بعد شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے عام شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری شروع کردیا گیا ہے۔بعض ذرائع کے مطابق فتح کے جشن میں 200عام شہریوں کو تہہ تیغ کیا گیا جس کے بعد بعض شہریوں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ جس فوج نے گھروں میں گھس کر خواتین اور بچیوں کو قتل کیا وہ اگر ’محفوظ راستہ“ دینے کی بات کرے تو اس پر کیسے یقین کیا جائے ؟
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے گزشتہ روز اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ حکومت کی اتحادی فورسز لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر انہیں نشانہ بنا رہی ہیں اور 82 شہریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
15 نومبر کے بعد سے شامی فوج کی حلب کے اطراف میں موجود علاقوں میں پیش رفت کے بعد سے خوف زدہ شہریوں کی بڑی تعداد از خود علاقہ چھوڑ چکی ہے۔شام میں گزشتہ 5 سال سے جاری خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ افراد ہلاک جبکہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں فوج اور مسلح گروپوں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث یہاں کے عوام شدید کرب میں مبتلا ہیں۔
شامی حکومت کے اتحادی روس کا کہنا ہے کہ حلب میں لڑائی کے باعث ایک لاکھ شہری بے گھر ہوئے ہیں جن میں 13 ہزار تین سو شہری گزشتہ 24 گھنٹوں میں بے گھر ہوئے ہیں۔روس کا مزید کہنا ہے کہ دو ہزار دو سو باغیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔شامی صدر بشار الاسد کے خلاف 2011 میں بغاوت کے آغاز سے قبل حلب شام کا ایک بڑا شہر تھا جس کو تجارتی اور صنعتی اہمیت حاصل تھی۔گزشتہ چار سال میں حلب شہر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا جس میں شہر کا مغربی حصہ شامی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور مشرقی حصہ باغیوں کے کنٹرول میں۔ شامی فوج نے ایرانی ملیشیا اور روسی فضائی بمباری کی مدد سے ستمبر میں بڑا حملہ کیا۔ روس کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ بندی باغیوں کے لیے شہر کے مشرقی علاقوں کو محفوظ طریقے سے چھوڑنے کا آخری موقع ہوگا ، باغیوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ۔ہزاروں افراد محصور علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں خوراک اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس دوران بمباری بھی جاری رہی۔
قبل ازیں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق راکٹ حملوں، فائرنگ اور کار بم دھماکوں میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔خیال رہے کہ حکومتی فوجوں کی جانب سے باغیوں کے زیرانتظام شہر کے مشرقی علاقوں کو جولائی سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز سرکاری خبر رساں ایجنسی نے فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ شامی فوج نے شیخ سعید، شہادن، کرم العفندی، کرمالدادا اور صالحین کے اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
بی بی سی کے ایک پروگرام سے بات کرتے ہوئے شام میں انگریزی زبان کے استاد عبدالکافی الحمادو نے بتایا کہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں صورتحال بہت خراب ہے۔ ‘مشرقی حلب میں قیامت کا سماں ہے۔ ہر جگہ بم گر رہے ہیں اور لوگ بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر لوگ زخمی پڑے ہیں اور کسی میں ہمت نہیں کہ وہ زخمیوں کی مدد کے لیے جائیں۔ اور کچھ لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے مبصرین نے بتایاہے کہ شام میں حکومت کی حمایتی فورسز مشرقی حلب میں مکانوں میں داخل ہو کر مکینوں کو مار رہی ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ باوثوق شواہد کے مطابق4 علاقوں میں 82 شہریوں کو دیکھتے ہی گولیاں ماری گئیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر ے ترجمان روپرٹ کولوِل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ شامی حکومت کی حمایتی فورسز نے 82 شہریوں کو ہلاک کیا جن میں 11 خواتین اور 13 بچے شامل تھے۔انھوں نے کہا ‘کہ ہمیں اطلاعات ملیں کہ سڑکوں پر کئی لاشیں پڑی ہیں۔ شدید بمباری اور گولی کا نشانہ بننے کے خوف سے رہائشی ان لاشوں کو اٹھا نہیں سکتے تھے۔شامی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل سمیر سلیمان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ‘یہ غلط دعوے ہیں۔ شامی فوج ایسا کبھی نہیں کر سکتی اور نہ ہی ہماری فوج نے تاریخ میں ایسا کبھی کیا ہے۔
دوسری جانب یونیسف نے مشرقی حلب میں موجود ایک ڈاکٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک عمارت پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں جس میں تقریباً 100 ایسے بچے موجود ہیں جس کے ساتھ کوئی وارث نہیں ہے۔یونیسف نے ڈاکٹر کے حوالے سے کہا ‘تقریباً 100 بچے جن کے ساتھ کوئی بڑا نہیں ہے عمارت میں پھنسے ہوئے ہیں جس پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر میں باغیوں کے زیر انتظام علاقوں پر حکومتی افواج کی پیش قدمی کے بعد لوگوں کو خوشی مناتے ہوئے دکھایا گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں