شاہد خاقان عباسی نے بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر دیا
شیئر کریں
سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کو عدالتوں سے زبردستی نااہل کروایا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔ ن لیگ اقتدار کا سوچ رہی ہے،ہم اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔ مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ سے ہٹ گئی اور اب وہ اقتدار کی سیاست کررہی ہے، جس سے ملکی مسائل میں اضافہ ہوگا، اس کی موجودہ سیاست سے اتفاق نہیں کرسکتا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے لاڈلا کا تاثر انتخابات کو پہلے سے متنازع بنا رہا ہے، نواز شریف کو خاموشی ترک کرکے عوام کو اپنی سوچ کے متعلق بتانا چاہیے کہ وہ ملک و سیاست کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج، عدلیہ اور سیاست دان الیکشن سے قبل راستے کا تعین کریں ورنہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ اس لیے الیکشن نہیں لڑ رہے کیوں کہ وہ اس الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ خرابی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف کے باعث الیکشن میں حصہ نہیں لوں گا، انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ خرابی سے خود کو دور رکھنا چاہتا ہوں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیں، ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عوام کی تکلیفیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اگر پہلے سے تاثر ہو کہ کون فیورٹ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن فیئر نہیں ہوں گے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ووٹ کو عزت دلوائیں اس کی بے عزتی نہ کریں، انتظامیہ کے بجائے اپنے بل پر الیکشن لڑیں۔انھوں نے انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ صرف ان کا نہیں بلکہ باقی تمام جماعتوں کا مطالبہ ہے جو حالات کے مطابق ہے، پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ سب کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ ہو، پاکستان میں نئی سیاست لانے کا وقت ہے، دشمنی کی سیاست پاکستان اور عوام کے لیے اچھی نہیں۔
شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ ن کے سنجیدہ اور بردبار رہنماؤں میں شمار کیاجاتاہے،انھوں نے اپنے انٹرویو میں اپنی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں جو باتیں کی ہیں وہ کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہیں اور مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ بات بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے خود کو نادیدہ قوتوں کا لاڈلا ظاہر کرنے کی کوشش مسلم لیگ کی ساکھ کو نقصان پہنچارہی ہے اور اس تاثر کے عام ہونے کے بعد نواز شریف،مریم صفدر اور پارٹی کے دوسرے رہنماؤں کے خلاف مقدمات میں ان کی بریت کے فیصلوں کو مشکوک اور نادیدہ قوتوں کی مہربانی تصور کیا جارہاہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ گزشتہ چھ ہفتوں سے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر تمام ہی سیاسی جماعتیں کھل کر انتخابی سرگرمیاں اور رابطہ مہم میں مصروف ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کو کبھی جلسوں کی اجازت نہیں ملتی اور کبھی جلسے کی اجازت دئے جانے کے باوجود جلسے کا اہتمام کرنے کی ا کوشش کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔دوسری طرف نواز شریف اپنے خلاف تمام مقدمات میں ریلیف حاصل کر رہے ہیں،اور عمران خان پر مقدمات پر مقدمات بنائے جارہے ہیں اور وہ ’سیاسی بنیادوں پر قائم‘ سمجھے جانے والے مقدمات میں ٹرائل بھگت رہے ہیں اور جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔’اس سے یقینا اس تاثر کوتقویت ملتی ہے اب لاڈلہ کوئی اور بن گیا۔ نواز شریف جنہیں سلیکٹڈ پلس کہا جارہا ہے ان کے خلاف تمام مقدمات ایک ایک کرکے ختم ہورہے ہیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں وہ بری کردیے گئے ہیں اور نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی ہے۔ اور اب نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس آخری کانٹا رہ گیا ہے جس کے بعد وہ انتخابات کے لیے اہل قرار پا جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف ہے جس کے سربراہ کے خلافمسلسلتیزی کے ساتھ مقدمات قائم کیے جارہے ہیں جبکہ نواز، شہباز، مریم صفدر اور دیگر کے خلاف عدم ثبوت ”یا کسی اور وجہ“ سے مقدمات خارج ہورہے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو قوتیں جو ایسے مقدمات بنواتی ہے وہی انھیں خارج بھی کرودیتی ہیں یہ کھیل بہت پرانا ہے حکومتیں بدلنے کے ساتھ ہی انصاف کے معیار بدل جاتے ہیں طاقتور کے لیے قانون اور انصاف موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ اب تو بچے بچے کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ فلاں کی حکومت گئی اب اس کے خلاف مقدمات بنیں گے ضمانت نہیں ہوگی سزا ملے گی نااہل قرار دیا جائے گا اور پھر وہ مک مکا کرکے واپس آجائے گا اس ملک میں کون سا غدار اس ملک میں واپس نہیں آیا، بار بار آیا اور بار بار قوم کے سر پر مسلط ہوا، کوئی ایک نام ہو تو بتایا جائے بھارتی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے کی گیڈر بھبھکیاں دینے والے لیڈر کو بھی یہاں سر پر بٹھایا گیا۔ اب جب تک نواز شریف محبوب رہیں گے، انھیں بھی فیور ملتی رہے گی۔‘ اس قسم کے جملے کم و بیش ہر اس شخص سے سننے کو ملتے ہیں جن سے انتخابات اور انتخابی مہم کے بارے میں سوال کیا جائے۔ ان کا اشارہ حال ہی میں نواز شریف سمیت پاکستان مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماؤں کو ملنے والا ریلیف کی طرف ہوتا ہے لیکن شاہد خاقان عباسی کی طرح بہت سے سیاسی تجزیہ کار پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ کی حمایت سے جُڑی ’لاڈلے‘ کی یہ اصطلاح ملک میں جمہوریت اور خود مسلم لیگ نون کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے لیے ’خطرناک‘ سمجھتے ہیں۔نواز شریف اور ان کی جماعت کو آج اسٹیبلشمینٹ کا ’فیورٹ‘ قرار دینے کی وجہ انھیں عدالتوں سے ملنے والا ریلیف ہے اور اس ریلیف کی سب سے بڑی مثال ایون فیلڈ کیس ہے جسے ان کی جماعت ’سیاسی انتقام کی بنیاد پر قائم مقدمہ‘ قرار دیتی رہی ہے۔خیال رہے کہ جولائی 2018 میں پاکستان کی ایک عدالت نے نواز شریف کو، لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک میں 4 اپارٹمنٹس کی خریداری کے لیے منی ٹریل نہ دینے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ شریف خاندان پر الزام تھا کہ اس نے ان جائیدادوں کو غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے خریدا۔نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر کو بھی اسی مقدمے میں جرم میں مدد کرنے کے الزام میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے کچھ عرصہ پہلے ہی ختم کیا جا چکا ہے۔نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ نواز شریف کے خلاف کسی بھی الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور یہ بھی ثابت نہیں کر سکی کہ نواز شریف کے بچے اُن کے زیر کفالت تھے۔نیب کے نمائندے نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل کے خلاف کوئی دلیل نہیں دی اور عدالت نے نواز شریف کی سزا کو ختم کر دیا۔اس کے علاوہ نیب نے فلیگ شپ انویسٹمینٹ ریفرنس میں دائر اپیل واپس لے لی، جس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا جس کے ساتھ یہ مقدمہ بھی ختم ہو گیا۔اس مقدمے میں نواز شریف پر الزام تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر تھے جسے انھوں نے کبھی ظاہر نہیں کیا لیکن معاملہ صرف ایون فیلڈ کیس تک ہی محدود نہیں ر تقریباً چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر جب نواز شریف اس سال 21 اکتوبر کو وطن واپس آئے اور عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو نیب حکام نے عدالت کو بتایا کہ انھیں نواز شریف کی گرفتاری مطلوب نہیں حالانکہ نواز شریف نہ صرف اشتہاری تھے بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ا سٹیل ملز کے مقدے میں ضمانت بھی منسوخ ہو چکی تھی۔ایون فیلڈ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر نواز شریف کے وکیل جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل دے تھے اور اس دوران جب عدالت نے نیب حکام سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اس مقدمے میں مجرم کے خلاف شواہد موجود ہیں تو نیب پراسیکوٹرز نے کہا کہ وہ تو نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر ہی نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ایسا تو انھوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے پانامہ لیکس میں دیے گئے حکم پر کیا تھا۔جس کے بعد عدالت نے نواز شریف کو اس ریفرنس سے بری کر دیا اور اس کے ساتھ ہی نیب حکام نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی ہائیکورٹ میں دائر اپنی اپیل واپس لے لی جو انھوں نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس میں میاں نواز شریف کو بری کردیا گیا تھا۔کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کسی مخصوص اشارے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھی پچھلے کچھ مہینوں سے نرمی برتی جا رہی ہے۔سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے آمدنی سے زائد اثاثوں کا ریفرنس ستمبر میں خارج کیا۔ ساتھ ہی ان کے اثاثے بحال کرنے کا حکم جاری کیا۔یہی صورتحال سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی تھی جو پنجاب کے وزیرِ صحت تھے۔ ان دونوں سیاستدانوں کے خلاف پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی میں بے ضابطگیوں کے ریفرنس تھے جن میں نیب عدالت نے 11 اکتوبر کو دونوں کو بے گناہ قرار دیا۔ اُن پر یہ مقدمہ 2018 میں قائم کیا گیا تھا۔سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ نے اینٹی نارکوٹکس فورس کی اُن کی ضمانت کی منسوخی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی ضمانت برقرار رکھی۔ انھیں جولائی 2019 میں منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔لاہور ہائیکورٹ نے ایفیڈرین کوٹہ کیس میں سابق رُکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی سزا کو کالعدم قرار دے کر انھیں بری کردیا۔ اُن پر یہ مقدمہ 2018 میں بنا تھا۔مگر 2018 میں حکومت میں آنے والی عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ایک یکسر مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما گرفتار ہیں یا مبینہ طور پر اسٹیبلشمینٹ کے دباؤ کی وجہ سے اس جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں اس وقت حلقوں کی سطح پر پی ٹی آئی کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر ہے۔حالیہ چند ہفتوں میں پی ٹی آئی کے ورکرز کو جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جانا بھی معمول ہے۔حال ہی میں اپر دیر میں ورکرز کنوینشن کے دوران پی ٹی آئی کے ورکرز اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح کرک، سوات اور ایبٹ آباد ورکرز کنوینشن کے دوران ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔ پشاور اور کراچی میں پی ٹی آئی کو یہ کنونشنز ہی منسوخ کرنا پڑے کیونکہ مقامی حکام نے انھیں سیاسی سرگرمی منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔حکام کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی خدشات کے باعث اجازت نامے نہیں دیے جا رہے تاہم یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں مکمل آزادی کے ساتھ ان ہی علاقوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ ان کی جماعت کو انتخابی سرگرمیوں کے سلسلے میں جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی اور انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔اس حقیقت سے کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں دیگر جماعتوں اور خاص طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی جماعت کو خصوصی رعایت دی جا رہی ہے؟کیا اس کے سوا کچھ اور تاثر قائم ہوسکتاہے کہ نادیدہ قوتیں ہرقیمت پر عمران خان کوعضو معطل بناکر نواز شریف کو کھلا میدان دینا چاہتی ہیں کیونکہ انھیں یقین ہے کہ عمران خان میدان میں ہوئے تو مسلم لیگ ن کے بہت سے رہنماؤں کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔