
سندھ کے ہاؤسنگ اور سولر منصوبوں میں شفافیت کا فقدان،سینیٹ کمیٹی میںسوالات
شیئر کریں
20 سولر پینل ایک گھر میں ہی جا رہے ہیں، جو اس اسکیم کے غلط استعمال کو ظاہر کرتے ہیں
لاگت 21ہزار ، کمپنی کا مزید 8ہزار کا حوالہ ، پھر 32ہزار روپے کی بولی کیوں؟سوالات
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور نے سندھ میں ہاؤسنگ اور شمسی توانائی کے شعبوں میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے کروڑوں ڈالر کے منصوبوں اور ٹرانسمیشن کے شعبے میں میگا قومی منصوبوں پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کا اجلاس ہوا، جس میں سندھ سولر انرجی پروجیکٹ (ایس ایس ای پی)، غیر ملکی فنڈنگ کے تحت ہاؤسنگ اسکیموں، ٹرانسمیشن اور انفرااسٹرکچر کے متعدد منصوبوں سمیت عوامی فلاح و بہبود کے بڑے منصوبوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز حاجی ہدایت اللہ خان، فلک ناز، کامران مرتضیٰ، راحت جمالی، کامل علی آغا، ڈاکٹر افنان اللہ خان اور سیف اللہ سرور خان نیازی نے شرکت کی۔کمیٹی نے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا، جس کے تحت 100 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے گھرانوں میں سولر سسٹم تقسیم کیے جارہے ہیں، حکام نے بتایا کہ اب تک 2 لاکھ میں سے صرف 23 ہزار شمسی نظام تقسیم کیے جاسکے ہیں۔چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے عہدیداروں کی شفافیت اور وضاحت کے فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کو مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔انہوں نے منصوبے پر عمل درآمد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکام سے کہا کہ آپ شمسی منصوبے کی تفصیلات نہیں دے رہے ، اشتہارات ایسے چل رہے ہیں، جیسے سندھ کو سوئٹزرلینڈ میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 0 سے 20 یونٹ کیٹیگری کے صارفین جو 6ہزار روپے کی پیشگی لاگت برداشت نہیں کرسکتے تھے ، انہیں اس اسکیم سے باہر رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ اسکیم کم آمدنی والے لوگوں کے لیے ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی ان سے 6 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنے کی توقع کی جارہی ہے ، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ 20 سولر پینل ایک گھر میں جا رہے ہیں، جو اس اسکیم کے غلط استعمال کو ظاہر کرتے ہیں۔انہوں نے خریداری کے عمل کے پیچھے مالی منطق پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ آپ کے مطابق، لاگت 21 ہزار روپے ہے ، اور کمپنی نے مزید 8 ہزار روپے کا حوالہ دیا ہے ، آپ نے 32 ہزار روپے کی بولی کیسے قبول کی؟ انہوں نے متعلقہ حکام کو مارکیٹ ریٹ کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت کی۔حکام نے تصدیق کی کہ 18کمپنیوں نے بولی لگانے کے عمل میں حصہ لیا، جن میں سے ایک چینی کمپنی سمیت 3 کو ٹھیکے دیے گئے ، ابتدائی بولی 10 ہزار روپے فی سسٹم تھی، لیکن بعد میں قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ دیگر محکموں کے منصوبوں میں ادا کیے جانے والے عام کنسلٹنسی ریٹ 2 فیصد کے بجائے 10 فیصد چارجز غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو ادا کیے گئے ۔سینیٹر کامل علی آغا نے ایس ایس ای پی اور ہاؤسنگ اسکیموں میں این جی اوز کو شامل کرنے کی منطق پر بھی سوال اٹھایا، کمیٹی کے چیئرمین نے فائدہ اٹھانے والوں کے ریکارڈ میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ‘بی آئی ایس پی میں ہر گھر میں 22 لوگ ہیں، آپ نے جو معلومات دی ہیں وہ ثابت کرتی ہیں کہ ایک گھر کے 20 افراد ہیں، ایک گھر کو 20 پینل نہ دیں۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستوں کی ساکھ کے حوالے سے خدشات کے حوالے سے سیکریٹری اقتصادی امور اور چیف سیکریٹری سندھ کو باضابطہ خطوط لکھے جائیں گے ، سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ضرورت مند لوگوں کو شمسی نظام دیں، نہ کہ ایک ہی گھر کو بار بار فائدہ پہنچایا جائے ۔غیر ملکی امداد کے تحت سندھ میں ہاؤسنگ منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے قائمہ کمیٹی نے 21 لاکھ گھروں کے لیے مختص 22 ارب روپے پر تحفظات کا اظہار کیا، اور کہا کہ مبینہ طور پر 10 ہزار 500 روپے فی گھر این جی اوز کو دیے گئے ، کیا 22 ارب روپے ایک چھوٹی رقم ہے ؟چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ عام لوگوں کے نام پر این جی اوز کی مدد کے لیے یہ اسکیمیں کس طرح تیار کی گئی ہیں؟انہوں نے اس میں ملوث 5 این جی اوز کا 20 سالہ ریکارڈ، ان کا پس منظر اور معاہدوں کی نقول طلب کرلیں، کمیٹی نے سندھ پیپلز ہاؤسنگ برائے سیلاب متاثرین (ایس پی ایچ ایف) اور سندھ سولر انرجی پروجیکٹ کے سینئر حکام کی غیر حاضری کا بھی سخت نوٹس لیا، پیش ہونے والے عہدیدار کمیٹی کو مطمئن کرنے سے قاصر رہے ۔کمیٹی نے این ٹی ڈی سی کے 765 کے وی داسو اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن منصوبے پر بھی غور کیا، جس میں پینل نے ایک ارب 28 کروڑ روپے سے زائد کے ممکنہ مالی تضاد کی نشاندہی کی۔کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ اس معاملے پر گزشتہ اجلاسوں میں پہلے ہی تفصیلی تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے ، عہدیداروں نے تسلیم کیا تھا کہ ٹیکس کی رقم کوالیفائیڈ فرم کو جاری کردہ لیٹر آف ایکسیپٹینس (ایل او اے ) میں شامل نہیں تھی۔این ٹی ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ایل او اے میں درج رقم (33 ارب روپے ) کی بھی منظوری دی اور بعد میں دستخط شدہ معاہدے میں ایک ارب 28 کروڑ 20 لاکھ روپے شامل کیے گئے ۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) اور چیئرمین نیب سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، اور بولی کے معاہدوں کی مبینہ خلاف ورزیوں پر این ٹی ڈی سی کے تمام بورڈ ممبران سے وضاحت طلب کرلی۔