میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر قومی سلامتی  کمیٹی کاذمہ دارانہ فیصلہ

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کاذمہ دارانہ فیصلہ

منتظم
جمعرات, ۴ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف اوردھمکی آمیز بیان کے بعد وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلا س میںاطلاعات کے مطابق امریکی صدر کے بیان پر پاکستان نے اپنا رد عمل دینے کے لیے تینوں سروسز چیفس، ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت، وزارت خارجہ اور داخلہ کے سیکریٹریزکی موجودگی میں ان کی مشاورت سے جوابی بیانیہ تیار کرنے پر غور کیاگیا ، اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان میں امریکی سفیر اعزاز چوہدری کو ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا،اب اجلاس میں طے کیے گئے نکات کے مطابق اعزاز چوہدری کو امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا لائحہ عمل بتایا جائے گا اوروہ امریکا واپسی پر اس سے امریکا کو آگاہ کریں گے۔ذرائع کے مطابق ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس آئی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی اب تک کی کامیابیوںکے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دی تاکہ اجلاس کے شرکاکو ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پر حکومت پاکستان کاجوابی بیانیہ تیار کرنے میں مدد ملے۔ جب کہ وزارت خارجہ کے حکام نے اجلاس کو پاکستان کے سفارتی رابطوں کے حوالے سے بریفنگ دی،وزیر دفاع خرم دستگیر نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں القاعدہ کو شکست دینیکے لیے پاکستان نے امریکا کی ناقابل تردید مدد کی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور افواج کی قربانیاں شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق امریکی صدر کے بیان پر اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں اب پاکستان اپنا رد عمل دینے کے لیے جوابی بیانیہ تیار کرے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی (این ایس سی) کے سترھویں اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے الزامات پر ‘شدید مایوسی’ کا اظہار کرتے ہوئے بیان کو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور پاکستان کی قربانیوں سے انکار کے مترادف قرار دے دیا گیا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے این اسی سی کے جلاس میں ڈونلڈٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات اور اسٹریٹجک صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں یہ بات واضح کی گئی کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے۔قومی سلامتی کمیٹی نے ایک دفعہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو غلط اورگمراہ کن قراردیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو کھلی چھٹی حاصل ہے اورامریکا افغانستان میں اپنی ناکامی پاکستان پر نہیں تھوپ سکتا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بجاطورپر واضح کیاہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی، قربانیوں اور شہدا کے خاندانوں کے درد کا بے حسی سے مالی قدر سے موازنہ کرنا مناسب نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ٹوئٹر پر ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 سال کے دوران اسلام آباد کو 33 ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔امریکی صدر نے اپنے بیان میں یہ بھی الزام لگایاتھاکہ پاکستان نے ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھا، جن دہشت گردوں کو ہم افغانستان میں ڈھونڈتے رہے پاکستان نے انہیں محفوظ پناہ گاہیں دیں اور ہماری بہت کم معاونت کی، لیکن اب مزید نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کا یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ وقفے وقفے سے اس طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں اور ان کے اس طرح کے بیانات خود امریکی فوج ااور انتظامیہ کے لیے مشکلات کاسبب بنتے رہے ہیں اور انھیں معاملات کو سنبھالنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے،جبکہ اس طرح کے الزامات کے جواب میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح پیغام دے چکی ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانے کے لیے بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیںا ورپاک فوج اورحکومت امریکی صدر پر یہ واضح کرچکی ہے کہ ہم امریکی امداد کے بھوکے نہیںہیں ہم صرف اپنی قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس اپنے دورہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں بجا طورپرامریکی صدر کو یاد دلایاگیاہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف غیر متزلزل جنگ لڑی اور قیام امن کے لیے پاکستان نے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نییہ بات بھی دوٹوک انداز میں واضح کردی کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کی حفاظت اور اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا جانتی ہے تاہم پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت ہمیشہ کی طرح تحمل اوربرداشت کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور اقدامات کاتعلق ہے تو خود امریکا کی اعلیٰ فوجی قیادت ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کی قربانیوں کااعتراف کرتے ہوئے اس حوالے سے پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرچکی ہے ،امریکا کی اعلیٰ فوجی قیادت اس حقیقت کا برملا اعلان کرتی رہی ہے کہ پاکستانی قوم نے دہشتگردی کیخلاف مثالی وغیرمتزلزل عزم کا مظاہرہ کیا،امریکی فوجی حکام یہ بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشن کے باعث خطے میں القاعدہ کا خاتمہ ہوا۔امریکی سیاسی اورفوجی قیادت کی جانب سے پاک فوج کی قربانیوں کے اعتراف کے بعد اب پاکستان کو کسی طوربھی افغانستان میں مشترکہ ناکامی کا ذمے دارقرار نہیں دیا جا سکتا،پاکستان اس سے قبل بھی امریکا پر یہ واضح کرچکاہے کہ اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں سیاسی محاذ آرائی، کرپشن اورمنشیات بڑے چیلنجز ہیں جبکہ پڑوسی ملک میں حکومتی عملداری کے باہرعلاقے بین الاقوامی دہشتگردوں کی پناہ گاہوں سے بھرے ہیں، دہشتگردوں کی ان پناہ گاہوں سے پورے خطے خصوصاً ہمسایہ ممالک کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا یہ مطالبہانتہائی بروقت اور برمحل ہے کہ امریکی قیادت افغانستان میں دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے کیونکہ الزام تراشیوں کے ذریعہ نہیں بلکہ باہمی اعتماد کے ساتھ ہی آگے بڑھنے سے افغانستان میں پائیدار و مستحکم امن قائم ہو سکتا ہے۔امریکی صدر اور انتظامیہ کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ افغان قیادت میں امن عمل نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن وسلامتی کے لیے ضروری ہے، پاکستان افغان قیادت میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا رہاہے اوراس ضمن میں کسی طرح کے تعاون سے پیچھے نہیں ہٹاہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان دشمن اور انتہائی غیر سنجیدہ اور گمراہ کن بیان کے بعد وزیر دفاع خرم دستگیر نے ایک دفعہ پھر یہ وضاحت کی ہے کہ القاعدہ کوافغانستان میں شکست دینے کے لیے پاکستان نے امریکا کی ناقابل تردید مدد کی ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام اور افواج کی قربانیاں شامل ہیں۔انھوں نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں،پاکستان اپنی زمین کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، پاکستانی سرزمین پرافغانستان سمیت کسی کی بھی جنگ نہیں لڑنے دیں گے۔

جہاں تک پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے بیان کاتعلق ہے تواس حوالے سے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کا بیان انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے، ٹرمپ نے پاکستان اور پاکستانی قوم پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، اس بیان پر پوری قوم کومتحد ہوکر اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔

امید کی جاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کے سنجیدہ عناصر اپنے صدر کو اس طرح کے بے سروپا بیانات دینے سے گریز کرنے کی تلقین کریں گے اور اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کو مزید وسیع ہونے سے روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات پر توجہ دیں گے جس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کابرملا اعتراف شامل ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں