ٹرمپ کا اپنے خاندان اور خود کومعاف کرنے پر غور !!!
شیئر کریں
امریکی صدرکوتفتیش شروع ہونے سے قبل سنگین سے سنگین جرم میں ملوث مجرم کومعاف کرنے کااختیارحاصل ہے
ایچ اے نقوی
امریکا کے موقر اخبارات نے جن میں واشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمز شامل ہیں حال ہی میں ایسی اطلاعات شائع کی ہیں جن سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے اپنے اور اپنے بیٹے داماد اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے جاری تفتیشی رپورٹ سامنے آنے سے قبل ہی خود اپنے آپ کو اور اپنے تمام اہل خانہ کومعاف کرنے پر غور کرسکتے ہیں، اس حوالے سے گزشتہ دنوں انھوںنے ایک بیان میں واضح طورپر کہاتھا کہ انھیں کسی کو بھی بڑے سے بڑے جرم پر بھی معاف کرنے کامکمل اختیار حاصل ہے،واضح رہے کہ امریکی قانون کے مطابق صدر مملکت کو کسی بھی مجرم کو جرم ثابت ہونے سے قبل یہاں تک کہ کسی جرم کی تفتیش شروع ہونے سے قبل بھی معاف کرنے کامکمل اختیار ہے۔
امریکی میڈیا میںصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ذاتی طور پر وہ بیان لکھوایا تھا جو ان کے بیٹے نے روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں دیا تھا۔بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر روسی وکیل نے جون 2016 میں زیادہ تر روسی بچوں کو گود میں لینے کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے بعد میں انکشاف کیا کہ وہ روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کیلئے اس وقت راضی ہوئے جب انھیں بتایا گیا کہ وہ ان سے ہلیری کلنٹن کو نقصان پہنچانے والا مواد حاصل کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کی امریکا کے صدارتی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔امریکی سینیٹ، ایوانِ نمائنیدگان اور ایک خاص کونسل امریکا کے صدارتی انتخاب کی مہم میں مبینہ روسی مداخلت کی تفتیش کر رہے ہیں جس کی کریملن تردید کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کا بیان آنے کے بعد وائٹ ہاؤس میں مزید افراتفری دیکھنے میں آئی اور وائٹ ہاؤس کے افسرِ رابطہ این تھنی سکاراموچی کو اپنے عہدے پر تعینات ہونے کے صرف10 دن کے اندر اندر برطرف کر دیا گیا ہے۔سکاراموچی وال ا سٹریٹ کے سابق ماہرِ مالیات ہیں۔ انھیں اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جب انھوں نے ایک رپورٹر سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے رفقائے کار کے بارے میں گالیوں بھری زبان استعمال کی۔اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے ذاتی طور پر وہ بیان لکھوایا تھا جو ان کے بیٹے نے روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں دیا۔صدر ٹرمپ کے چیف آف ا سٹاف رائنس پر یبس اور ترجمان شان ا سپائسر دونوں نے سکاراموچی کی تعیناتی کے بعد اپنے عہدے چھوڑ دیے تھے۔وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ بھی سکاراموچی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ٹرمپ کی ترجمان سارا سینڈرز نے کہا کہ صدر کے خیال میں سکاراموچی نے رپورٹر کے ساتھ ‘جو زبان استعمال کی وہ اس عہدے پر کام کرنے والے کسی شخص کے شایانِ شان نہیں تھی۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر، ان کے بہنوئی جیرڈ کشنر اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سربراہ پال مینفرٹ نے روسی وکیل نٹالیا ویسلنی تسکایا سے نیویارک میں واقع ٹرمپ ٹاور میں جون 2016 میں ملاقات کی تھی۔ٹرمپ جونیئر کو برطانوی پبلسسٹ راب گولڈ اسٹون کی جانب سے ایک ای میل آئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ بعض ایسے روسی دستاویزات ہیں جو کہ ہلیری کلنٹن کو مجرم ثابت کر دیں گے۔لیکن ٹرمپ جونیئر کا کہنا ہے کہ اس خاتون نے انھیں کام کی کوئی چیز نہیں دی اور یہ کہ میٹنگ صرف 20 منٹ جاری رہی۔صدر ٹرمپ نے اپنے بیٹے کی حمایت میں ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں انھیںاعلیٰ صلاحیت کا حامل شخص’ قرار دیا اور انکی شفافیت کی تعریف کی۔
دوسری جانب امریکی میڈیا میں یہ الزام بھی سامنے آیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے ماسکو کے ساتھ بات چیت کی خفیہ لائن قائم کرنے کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مبینہ طور پر گذشتہ برس دسمبر میں ایک میٹنگ کے دوران ایک چینل یا راہداری قائم کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔وائٹ ہاؤس کے سینئر اہلکار جیرڈ کشنر نے تازہ رپورٹ پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔امریکا کا وفاقی تحقیقی ادارہ ایف بی آئی 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ممکنہ روسی مداخلت اور ٹرمپ کی انتخابی مہم سے روس کے روابط کے بارے میں تفتیش کر رہا ہے۔خیال رہے کہ ایف بی آئی کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات کی وسیع تفتیش میں جیرڈ کشنر بھی تفتیش کے دائرے میں ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ جیرڈ کشنر کے پاس اہم معلومات ہیں، تاہم لازمی نہیں ہے کہ انھوں نے کسی غلطی کا ارتکاب کیا ہو۔تازہ ترین رپورٹس میں امریکی اہلکاروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جیرڈ کشنر نے امریکا میں روسی سفیر کی سفارتی سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے بیک چینل قائم کرنے کے سلسلے میں موسکو کے سفیر سرگئی کسل یاک سے بات چیت کی تھی۔امریکی اہلکارں کے مطابق اس بیک چینل کو شام کے معاملات اور دوسری پالیسیوں پر بات چیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے قومی سلامتی کے پہلے مشیر مائیکل فلن نیویارک میں ٹرمپ ٹاور میں منعقدہ میٹنگ میں موجود تھے۔نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ یہ بیک چینل کبھی قائم نہیں کیا جا سکا۔واشنگٹن پوسٹ نے پہلے ہی یہ بتا رکھا ہے کہ اس معاملے میں ایف بی آئی کے تفتیش کار جیرڈ کشنر کی کسل یاک اور ماسکو کے ایک بینکر سرگیئی گورکوف کے ساتھ گذشتہ سال ہونی والی ملاقات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔جیرڈ کشنر اور جنرل فلن کا نام روس کے ساتھ زیر تفتیش ملاقات میں آیا ہے۔خیال رہے کہ جنرل فلن کو رواں برس فروری میں اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب یہ بات سامنے آئی کہ انھوں نے انتظامیہ کے دوسرے اہلکاروں کو کسل یاک کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح کے بارے میں گمراہ کیا تھا۔امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال
ہے کہ ماسکو نے گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو ری پبلکن رہنما ٹرمپ کے حق میں کرنے کی کوشش کی تھی۔صدر ٹرمپ نے روس کے متعلق جانچ کو ‘امریکا کی تاریخ میں کسی سیاستدان کے خلاف ہونے والی سب سے بڑی واحد وچ ہنٹ’ قرار دیا ہے۔
امریکا میں روسی سفیر سرگی کسلی یک نے ماسکو میں اپنے اعلیٰ افسران کو بتایا ہے کہ اْنہوں نے گزشتہ برس امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز سے امریکا کی صدارتی مہم کے دوران مہم سے متعلقہ اْمور کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ روسی سفیر کا یہ بیان اْس بیان سے یکسر مختلف ہے جو اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے اس بارے میں دیا تھا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے موجودہ اور سابقہ امریکی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے روسی سفیر سرگی کسلی یک کی ماسکو میں اپنے اعلیٰ افسران سے ان ملاقاتوں کے بارے میں ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت ریکارڈ کی تھی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی صبح ایک ٹویٹ کے ذریعے اس انتہائی حساس اور خفیہ خبر کے لیک ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی خبروں کا لیک ہونا فوراً بند ہونا چاہئے۔اس سال فروری میں سیشنز نے اپنی تقرری کے حوالے سے کانگریس میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ اْنہیں گزشتہ برس صدر ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران خارجہ پالیسی کیلئے اْن کی مشیر کی حیثیت سے روسی اہلکاروں سے ہونے والے مبینہ رابطوں کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہے۔گزشتہ مارچ میں اخباری اطلاعات کے مطابق جیف سیشنز نے کم از کم دو مرتبہ سرگی کسلی یک سے ملاقات کی تھی۔ پہلی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ کے ری پبلکن پارٹی کیلئے صدارتی اْمیدوار کی حیثیت سے خارجہ پالیسی پر تقریر سے قبل اپریل 2016 میں ہوئی تھی جبکہ دوسری ملاقات اسی سال جولائی میں رپبلکن پارٹی کے کنونشن کے موقع پر ہوئی تھی۔اْس وقت سیشنز نے اعتراف کیا تھا کہ روسی سفیر سے اْن کی ملاقات ضرور ہوئی تھی لیکن اس ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم سے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔واشنگٹن پوسٹ نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیشنز نے دروغ گوئی سے کام لیا ہے اور اس کی تصدیق دیگر شہادتوں سے نہیں ہوتی۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے پوسٹ کو بتایا کہ سیشنز اور روسی سفیر کے درمیان جامع بات چیت ہوئی تھی جس میں روس سے متعلقہ اْمور کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف اور اْن کے صدر بننے کی صورت میں امریکا روس تعلقات کی نوعیت کے بارے میں گفتگو بھی شامل تھی۔اخبار نے لکھا ہے کہ موجودہ اور سابق امریکی اہلکاروں کے مطابق ان ملاقاتوں کے بارے میں سیشنز کے بیانات اور روسی سفیر کی ماسکو میں اپنے اعلیٰ افسران سے ہونے والی بات چیت میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
روسی سفیر امریکا کے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن کی برخواستگی کا باعث بھی بنے تھے۔ مائیکل فلن کو گزشتہ فروری میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جب یہ انکشاف ہوا کہ اْنہوں نے روس کے بارے میں امریکی پالیسی سے متعلق بات چیت کی تھی۔ اْنہوں نے اْس وقت بیان دیا تھا کہ روسی سفیر سے اْن کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم امریکا کی خفیہ ایجنسیوں نے روسی سفیر سے اْن کی بات چیت ریکارڈ کر لی تھی جس کے افشا ہونے پر اْنہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔