آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!!!
شیئر کریں
٭آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام نامکمل رہا،پاکستان عالمی ادارے کے 22میں سے 21 پروگرام پورے کرنے میں ناکام رہا، کڑی شرائط پر 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ
٭نئے اسٹینڈ بائی معاہدے کی مدت صرف 9 ماہ، بجلی کی قیمتوں میں سوا 8 روپے فی یونٹ تک اضافے کا امکان، گیس مزید مہنگی اور پیٹرولیم لیوی میں بھی اضافہ
٭آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے، تاہم معاہدے میں پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام نامکمل رہا۔پاکستان عالمی ادارے کے 22میں سے 21 پروگرام پورے کرنے میں ناکام رہا۔ ساڑھے 6 ارب ڈالرز کا قرض پروگرام جمعہ کو نامکمل ختم ہوا۔ کڑی شرائط پر 3ارب ڈالرز کے نئے اسٹینڈ بائی معاہدے کی مدت صرف نوماہ مقرر کی گئی ہے۔ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے عالمی مالیاتی ادارہ رقم مہیا کرے گا۔آئی ایم ایف سے معاہدہ تو ہوگیا لیکن معاملہ سب کچھ اتنا آسان اور سیدھا نہیں جتنا نظر آرہا ہے۔ اس معاہدے کی بھاری قیمت ایک مرتبہ پھر عام پاکستانیوں کو ادا کرنی ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتے ہی کڑی شرائط پر عملدرآمد میں تیزی آئے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں سوا 8 روپے فی یونٹ تک اضافے کاامکان ہے۔ گیس مزید مہنگی اور پیٹرولیم لیوی میں بھی اضافہ ہو گا۔ امپورٹ اور کرنسی ایکس چینج پر کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے گا۔ سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کے اقدامات ناگزیر قرار دیے گئے ہیں۔
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے مابین تین بلین ڈالر کا سٹاف لیول بیل آؤٹ معاہدہ ہو گیا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہیں کہ آیا معاہدے کی حتمی منظوری ہو گئی ہے اور یہ کہ اس کے لیے پاکستان کو کیا کرنا ہو گا؟کافی عرصے سے شدید مالیاتی اور اقتصادی مشکلات کے شکار ملک پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین یہ معاہدہ سٹاف لیول کا ایک انتظامی اتفاق رائے ہے، جس کی مالیت تین بلین ڈالر اور جس کی مدت نو ماہ ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسا اتفاق رائے بھی ہے، جسے ‘اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ’یا ایس بی اے بھی کہا جاتا ہے۔اس اتفاق رائے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ایس بی اے معاہدہ پاکستان کے ساتھ 2019ء میں طے پانے والی مالی وسائل کی فراہمی کی اس توسیع شدہ سہولت (Extended Fund Facility) یا ای ایف ایف کا متبادل ہے، جس کی مدت 30 جون جمعے کے روز پوری ہو گئی۔ مزید یہ کہ اس ایس بی اے کا مقصد ای ایف ایف کے تحت کی جانے والی کوششوں کو استحکام دینا ہے۔یہ معاہدہ فی الحال فریقین کے مابین ایک سٹاف لیول معاہدہ ہے، جس کی حتمی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا انتظامی بورڈ جولائی کے وسط میں دے گا۔آئی ایم ایف نے خاص طور پر ملک میں بجلی کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اس شعبے کے نرخوں میں اس طرح ‘بروقت’اصلاحات لانا ہوں گی، جن کی مدد سے کم از کم بجلی کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا، وہ بھی ان حالات میں کہ جب ملک میں افراط زر کی شرح پہلے ہی ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور یہ سال اصولی طور پر پاکستان میں عام انتخابات کا سال بھی ہے۔ پاکستانی مرکزی بینک کو بیرونی ادائیگیوں کو کنٹرول میں رکھنے اور زر مبادلہ کے ذخائر کے مسلسل بہت کم ہونے کی وجہ سے عائد کردہ درآمدات پر پابندیوں میں نرمی کرنا ہو گی، تاکہ یوں بہت کم رفتار ہو جانے والی اقتصادی ترقی میں اضافہ کیا جا سکے۔ پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر کی موجودہ مالیت محض 3.5 بلین ڈالر بنتی ہے، جو صرف ایک ماہ تک کی ملکی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے کافی ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں افراط زر کی شرح میں کمی کے لیے تندہی سے جامع اور مؤثر اقدامات کرے۔ پاکستانی مرکزی بینک آئی ایم ایف کے مطالبات پر پالیسی ریٹ کہلانے والی اپنی مرکزی شرح سود پہلے ہی 22 فیصد کر چکا ہے۔ ریاستی انتظام میں کام کرنے والے پاکستانی اداروں کی وجہ سے حکومت کو ہونے والا مالی خسارہ مسلسل بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کمی کے لیے حکومت کو زیادہ بہتر اور سخت گورننس کرنا ہو گی۔ آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے، تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ دوطرفہ اور کثیرالفریقی کوششیں کرے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں اور ان رقوم کی عملی ترسیل اب اس لیے متوقع ہے کہ اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے مابین ڈیل طے پا گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے بھی، جو پاکستان کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، قرضوں میں رول اوورکلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 22 بلین ڈالر درکار ہیں۔ اسلام آباد کو یہ رقوم مالی سال 2024ء میں درکار ہوں گی، جو ہفتہ یکم جولائی سے شروع ہو کر 30 جون 2024ء کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔آئی ایم ایف نے زور دے کر کہا ہے کہ پاکستان کے لیے اپنے سالانہ بجٹ کے حوالے سے نئے سرے سے جائزے کے بعد تیار کردہ بجٹ منصوبوں پر عملد درآمد یقینی بنانا بھی لازمی ہو گا۔ اس کے علاوہ حکومت کو بجٹ میں مختص کیے گئے اخراجات کے علاوہ دیگر اخراجات کے لیے خود پر پڑنے والے دباؤ کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا اور ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ سے بھی بچنا ہو گا۔ نئے ایس بی اے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس معاہدے میں درج تفصیلات پر مکمل اور بروقت عمل درآمد کرنا ہو گا تاکہ بہت بڑے بڑے چیلنجز کے باوجود اور بہت نازک حالات میں بھی نئے مالیاتی پروگرام کی کامیابی خطرے میں نہ پڑے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے خاص طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو زر مبادلہ کے اپنے انتہائی محدود ذخائر، بجٹ میں شدید خسارے اور ریکارڈ حد تک زیادہ افراط زر جیسے بڑے چینلجز سے نمٹنے کے لیے ایس بی اے میں درج نکات پر جاں فشانی سے عمل کرنا ہو گا اور اپنے لیے مکمل ‘مالیاتی نظم و ضبط’کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔معاشی ماہرین نے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا عارضی حل ہے جب کہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کو اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے پاکستان کو آئندہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کور فراہم کرد یا ہے۔پاکستان کو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) کے دوارن اضافی فنڈنگ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔ اسی صورت میں پاکستان آئندہ مہینوں میں اپنے واجبات کی ادائیگیاں کر پائے گا۔حالیہ معاہدہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے تعلقات کا خاتمہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ انتخابات کے بعد اگلی حکومت کو ادائیگیوں کے توازن اور غیر ملکی قرض ادا کرنے کے لیے ایک اور طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حالیہ معاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الوقت مقامی یا غیر ملکی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ہمیں مزید تفصیلات کا انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا جولائی میں آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل بھی حکومت کو مزید اقدامات تو نہیں کرنا ہوں گے۔ ایک اور اقتصادی ماہر کے بقول اس سے واضح ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک اور‘ایکسٹینڈڈ فنڈنگ فیسلیٹی’(ای ایف ایف) پورا ہوئے بغیر ختم ہوگئی ہے۔ اسٹینڈ بائی معاہدہ موجودہ اور انتخابات کے بعد نئی حکومت کو ایک عارضی لائف لائن فراہم کرے گا۔ لیکن نئی آنے والی حکومت کو از سر نو اور طویل المیعاد معاہدے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
٭٭٭