میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اے ڈی خواجہ کا جبری تبادلہ !

اے ڈی خواجہ کا جبری تبادلہ !

ویب ڈیسک
پیر, ۳ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

گزشتہ سال انور مجید کی خواہش کے برعکس اے ڈی خواجہ کے ایما اور ایپکس کمیٹی کی سفارش پر12 ہزار پولیس اہلکاروں کی بھرتی میرٹ پر کی گئی ‘شوگر ملز مالکان سے نمٹنے میں بھی انور مجید کا راستہ اے ڈی خواجہ نے روکا، یوں ایک پر ایک جرا¿ت مندانہ فیصلہ اے ڈی خواجہ کے لیے مشکلات کا باعث بنتا گیا
الیاس احمد
بالآخر وہی ہوا جس کی افواہیں گردش کررہی تھیں، حکومت سندھ نے18ویں ترمیم کو روندتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا جبری تبادلہ کرکے وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیرخود ہی قائم مقام آئی جی مقرر کردیا۔ ان سطور میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے آصف زرداری کے فرنٹ مین اور کاروباری شراکت دار انور مجید کے ساتھ تنازعات کی کہانیاں منظرعام پر لائی جاچکی ہیں لیکن اب جو کہانی سامنے آئی ہے وہ پرانی بوتل میں نئی شراب کے مصداق وہی بھرتیوں کا نیا سلسلہ ہے ،جس پر انور مجید کی نظریں ہیں کیونکہ یہ 6 ارب روپے کا کھیل ہے۔ انور مجید نے گزشتہ سال آئی جی سندھ پولیس سے کہا کہ وہ12ہزار نئے اہلکار وہ بھرتی کریں گے جس کی فہرست آصف زرداری سے سفارش کے ساتھ وہ (انور مجید) خود دیں گے، مگر آئی جی سندھ پولیس کا مو¿قف تھا کہ ایپکس کمیٹی فیصلہ دے چکی ہے کہ بھرتیاں کرنے والی کمیٹی میں ایک ایس پی اور ایک فوج کا میجر ہوگا تو ایسی صورتحال میں وہ کیسے ان لسٹوں کے تحت بھرتی کرسکیں گے؟ مگر انور مجید اَڑ گیا تو آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ بھی اپنے مو¿قف پر ڈٹ گئے، مگر بھرتیاں پہلی مرتبہ میرٹ پر ہوئیں یوں زمین پر خدا بنے بیٹھے انور مجید ہاتھ ملتے رہے اور وہ مشتعل ہوگئے اور آصف علی زرداری کو کھری کھری سنادیں۔ پھر شوگرملز مالکان کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرکے ان سے اونے پونے داموں میں شوگر ملز خریدنا تھیں، جس پر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے انکار کردیا اور واضح کیا کہ وہ پولیس کو شوگر ملز مالکان کو گرفتار کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر وہ خود شوگر ملز فروخت کرنا چاہیں تو یہ ان کی اپنی مرضی سے مگر ان کو زبردستی مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انور مجید کو پھر شکست ملی اور وہ مزید مشتعل ہوا۔ پھر انور مجید سے گنے کے کاشتکاروں کو اپنی مرضی سے گرفتار کرایا کہ وہ اپنا گنا اس نرخ پر انور مجید کی شوگر ملز کو فروخت کریں جو نرخ انور مجید طے کرے گا یعنی سرکاری نرخ سے کم نرخ پر کاشتکار گنا فروخت کریں۔ ظاہر بات ہے کہ کاشتکار6ماہ محنت کرتا ہے اور وہ سرکاری نرخ سے کیوں کم نرخ پر گناہ فروخت کرے گا؟ اس معاملہ کا علم جب آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو ہوا تو انہوں نے نہ صرف گنا کے کاشتکار رہا کرادیے بلکہ ان پولیس افسران کو جھاڑ پلادی جنہوں نے انورمجید کے کہنے پر بے گناہ کسانوں کوگرفتار کیا تھا۔ پھر انورمجید نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ (موجودہ جسٹس سپریم کورٹ) سید سجاد علی شاہ کے بیٹے بیرسٹر اویس شاہ کے اغواءکے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر ایس ایس پی جنوبی ڈاکٹر نجیب کو ہٹایا تھا، اسی طرح خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر وزیرراعلیٰ کے حکم پر ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کو بھی ہٹایاتھا۔ انور مجید نے آئی جی سندھ پولیس سے کہا کہ وہ دونوں ایس ایس پیز کو نہ ہٹائیں اور وہ خود دباﺅ برداشت کرلیں مگر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے قطعی انکار کردیا اور دونوں ایس ایس پیز کو گھر بھیج دیا۔ اسی طرح ایس ایس پی سانگھڑ فرخ لنجار کو بھی آئی جی سندھ پولیس نے ہٹایا تو انورمجید نے ان کو روکا۔ پیر فریدجان سرہندی کو جب پوسٹنگ سے ہٹایا تو انورمجید سیخ پا ہوگیا۔ انور مجید کا پولیس میں اس طرح اثرورسوخ ہے کہ ان کی سفارش پر ایس ایس پی‘ ڈی آئی جی تو تعینات ہوتے ہیں مگر وہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی بھی تعینات کراتا ہے ۔پھر پولیس میں وردیوں‘ بیلٹ‘ جوتوں‘ ٹوپیوں کی خریداری کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے طے شدہ اصولوں اور سندھ پبک پریکیورمینٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کے تحت صاف وشفاف طریقے سے کرانے کا حکم دیا اور جو ٹھیکیدار پچھلے30سال سے یہ اشیاءفراہم کرتا تھا، جو کہ غیرمعیاری ہوتی تھیں ،اس کو بلیک لسٹ کردیا اور مسلح افواج کو یہ اشیاءفراہم کرنے والے ٹھیکیدار کو یہ اشیاءفراہم کرنے کی اجازت دی تو انورمجید کا پارہ چڑھ گیا اور پھر حال ہی میں سندھ پولیس میں مزید13ہزار نئی بھرتیوں کا فیصلہ کیاگیا تو اس مرتبہ انورمجید کو تقریباً ساڑھے6ارب روپے ڈوبتے نظر آرہے تھے کیونکہ ایک کانسٹیبل کی بھرتی پر5لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے پچھلی مرتبہ بھی میرٹ پر بھرتیاں کی گئی تھیں اور اس مرتبہ بھی13ہزار بھرتیاں میرٹ پر کرنے کا فیصلہ کیاگیا جو انورمجید کو قطعی طور پر منظور نہیں اور وہ اس مرتبہ بوریا بستر سمیٹ کر دبئی جا بیٹھے اور بڑے صاحب کو بتادیا کہ اگر آئی جی کو نہ ہٹایاگیا تو وہ امریکہ چلے جائیں گے۔ انور مجید کو یہ بھی خطرہ ہے کہ رینجرز نے ان کے دفتر پرچھاپہ مارکر جو اسلحہ برآمد کیا تھا اب آئی جی ان کو اس کیس میں کہیں گرفتارنہ کرلیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں