آرٹیکل 62 ون ایف کو آئین میں شامل کس نے کرایاتھا؟
شیئر کریں
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کے دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 سال بعد وہ دیانتدار کیسے ہوجائے گا۔درخواست گزار عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضی کو عدالت نے طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ آج دلائل نہیں دے سکوں گا۔ چیف جسٹس نے وجہ پوچھی تو کامران مرتضی نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)کے سینیٹر نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہوں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا کیا فیصلہ آیا ہے؟۔ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ نہال ہاشمی کو 5 سال کے لیے نااہلی اور ایک ماہ قید کی سزا دی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ نہال ہاشمی کو سزا کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ اپنے دلائل دیں۔کامران مرتضیٰ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پرکھا جائے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی ایک مدت کے لیے ہوگی اور نااہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے، کاغذات نامزدگی کے وقت ڈیکلریشن کردار سے متعلق ہوگا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بددیانتی بھی رہے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہی جائزہ لینا ہے ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا، اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا تو 5سال بعد وہ دیانتدار کیسے ہوجائیگا۔واضح رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔ادھر سپریم کورٹ سے صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایک دفعہ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلوں جانبدارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں میں میرے خلاف ہی مقدمات چل رہے ہیں مگر عوام جانتے ہیں کہ میرے خلاف مقدمات چلانے کی وجہ کیا ہے۔ احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جا کر چیک کر لیں سپریم کورٹ سمیت آج ہر جگہ میرا ہی کیس چل رہا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز صحافیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور عدلیہ دو ریاستی ادارے ہیں، سب کا مقصد ملک کی بہتری ہے۔
سپریم کورٹ سے صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل کیا گیا تو انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیدیا۔ اسی عدالتی فیصلے کے تحت انہیں مسلم لیگ ن کی سربراہی بھی چھوڑنا پڑی لیکن اس کے چند روز بعد ہی پارلیمنٹ نے ان کی مسلم لیگ ن کی سربراہی کے لیے متعلقہ قانون میں ترمیم کردی۔ جو شخص حادثاتی طور پر ہی سہی تین بار وزیراعظم منتخب ہوا ہو اور گزشتہ انتخابات میں بھی جس کی پارٹی نے عوام کو سبز باغ دکھا کر کم وبیش ڈیڑھ کروڑ ووٹ حاصل کر لیے ہوں،یہ صورتحال یقیناً اس کی دل گرفتگی کے لیے کافی ہے لیکن تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے کسی سینئر سیاستدان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ اگر اسے اپنی نااہلی کے فیصلے پر بولنا پڑا تو اس کا رویہ توازن و اعتدال پر مبنی نہیںہو گا، لیکن نواز شریف سادہ لوح عوام کو اپنی بے گناہی اور مظلومیت کایقین دلانے کے لیے جوش بیان میں ایسی باتیں کہہ گئے او ر کہہ رہے ہیں جوانھیں نہیں کہنی چاہئیں تھیں۔ ایسی صورتحال میں صبر، احتیاط اور انتظار کی راہ اختیار کرنا ہی اولوالعزمی ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی کہتے ہیں فوج اور عدلیہ دو ریاستی ادارے ہیں، سب کا مقصد ملک کی بہتری ہے۔ اگر عوام آپ سے پیار کرتے ہیں توآپ کو ان دونوں اداروں کا بھی بے پناہ احترام کرنا چاہئے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تمام عدالتوں میں میرے خلاف ہی مقدمات چل رہے ہیں بلکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی ساری توجہ، اپنے مقدمات کا احسن طریقے سے دفاع کرنے اور اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے پر مرکوز کریں۔ ملک و قوم کا ہر بہی خواہ یہی چاہتا ہے۔
نواز شریف کو جس قانون کے تحت نااہل قرار دیاگیا وہ قانون چیف جسٹس نے خود نہیں بنایا قانون سازی فقط پارلیمان کی ذمہ داری اور اختیار ہے،اور یہ قانون خود نواز شریف کے مرشد اعظم اس ملک کے بدترین عامر جنرل ضیاالحق نے ارکان اسمبلی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے اور اختلاف کی صورت میں ان کو بلیک میل کرکے اپنی حمایت پر مجبور کرنے کے لیے بنایاتھا ، اور نواز شریف اس قانون پر صاد کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ بدقسمتی سے 1985کے بعد سے منتخب ہونے والی اسمبلیوں نے قانون سازی پر ہی توجہ نہیں دی۔ غیر جماعتی انتخابات کی بدولت منتخب ہونے والی پہلی اسمبلی نے پورا ایک سال جنرل ضیاکے لگائے مارشل لاکو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں صرف کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس وقت کے ارکان اسمبلی نے ان آئینی اور قانونی ترامیم کو زیر غور لانے کی جرات ہی نہیں دکھائی جو فوجی آمر نے متعارف کرائی تھیں۔ اس حقیقت کااحساس کیے بغیر کہ ایسی کئی ترامیم نے آئین کی پارلیمانی روح کو ہمیشہ کے لیے کچل کررکھ دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں ’’صادق اور امین‘‘ جیسے مقدس الفاظ کا اضافہ بھی ایسی ہی ایک ترمیم تھی۔ ان الفاظ کے ہوتے ہوئے ذرا سی کوشش کے بعد کسی بھی رکن اسمبلی کو بآسانی نااہل قرار دلوایا جاسکتا ہے۔
حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ 1985کی اسمبلی کے معرضِ وجود میں آنے کے چند ہی ہفتوں بعد 62/63 کے حوالے سے ایک اہم ترین مقدمہ ہمارے سامنے آگیا تھا۔ جہلم سے قومی اسمبلی کی نشست پر راجہ افضل اور چوہدری الطاف حسین کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ راجہ افضل جیت گئے۔ چوہدری الطاف ان کے خلاف عدالت میں چلے گئے۔ شریف الدین پیرزادہ نے انہیں قانونی معاونت فراہم کی۔ چند پیشیوں کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ راجہ افضل ان کے خلاف دائر ہونے والی چند ایف آئی آرز کی بنیاد پر ایسے کردار کے حامل نظر نہیں آتے جو آئین میں ’’صادق اور امین‘‘ کے لیے طے ہوئے معیار پر پورا اترتا ہو اس بنیاد پر انہیں قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا اور فیصلہ یہ بھی ہوا کہ ان کی نااہلی کے بعد چوہدری الطاف حسین جہلم سے نمائندہ اسمبلی ہونے کے اہل ہیں اور وہ اس عہدے کا حلف لے کر قومی اسمبلی میں بیٹھیں۔چوہدری الطاف حسین اس فیصلے کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھانے فاتحانہ انداز میں قومی اسمبلی آئے ، لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوسکا اوراس طرح چوہدری الطاف اسمبلی کااجلاس شروع ہونے اور رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی آرزو کی تکمیل کے لیے اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے اجلاس کے آغاز کا انتظارکرتے رہے ، اس دوران اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو قائل کرلیا گیا ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کی معاونت سے راجہ افضل کو ان کی نشست سے محروم کرنے کا فیصلہ ’’کرایا‘‘ گیا ہے۔ دراصل اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ جنرل ضیااور ان کے حواری یہ محسوس کررہے تھے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت وزیراعظم محمد خان جونیجو کے گرد جمع ہوکر فوجی آمر کے پرکاٹنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ راجہ افضل کی 62/63 کے اطلاق کے ذریعے نااہلی کے بعد ایک نذیر قائم ہو جاتی اور ’’ایجنسیاں‘‘ بغاوت کے خواب دیکھنے والے اراکین پالیمان کے خلاف مواد جمع کرنا شروع کردیتیں۔ یہ مواد جمع کرنے کے بعد انہیں خاموشی سے دکھا دیا جاتا اور ان پرواضح کردیاجاتاکہ اگراب بھی انھوں نے زیادہ ہاتھ پیر نکالنے کی کوشش کی تو انہیں عدالتی عمل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل62/63 کو استعمال کرتے ہوئے نااہل کروا کر گھر بھیج دیا جائے گا۔
وزیر اعظم جونیجو اس سازشی تھیوری پر ایمان لے آئے تو فیصلہ ہوا کہ فوری طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے راجہ افضل کے حق میں حکم امتناع حاصل کیا جائے۔ اسحکم امتناع کے آنے تک قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہوگا تاکہ چوہدری الطاف اجلاس شروع ہوتے ہی ضوابط کے تحت بحیثیت رکن اسمبلی اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھاپائیں۔ غالباً تین یا چار گھنٹے کی تگ ودو کے بعد سپریم کورٹ سے راجہ افضل کے حق میںحکم امتناع آگیا اور اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا۔یہ ایک واقعہ تمام ارکان اسمبلی کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہئے تھے لیکن1985کے غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے قائم ہونے والی یہ اسمبلی اس واقعے کے بعد بھی دو سال تک کام کرتی رہی اور اس دوران جنرل ضیا کے کسی جاں نثار کو خیال ہی نہیں آیا کہ آرٹیکل62/63 میں ’’صادق اور امین‘‘ کے لیے طے ہوئے معیار اپنی جگہ موجود ہیں۔ انہیں استعمال کرنے کی آنے والے دنوں میں کسی کو بھی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے اور اس طرح یہ شق اپنی مبہم صورت میں آج بھی آئین میں موجود ہے اوربالآخر اس کا اطلاق 2017میں نواز شریف کے خلاف ہوگیا جسس کے بعد سے وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دہائی دیتے پائے جارہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے تین دفعہ اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود 18ویں ترمیم تیار کرتے وقت 62/63 میں موجود شقات پر توجہ کیوں نہیں دی۔اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ شقوں کے اطلاق کے بغیر نااہل قرار دیاگیاشخص تاحیات اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل رہے گا یا اس کی نااہلی کی مدت کو کچھ عرصے تک محدود کیا جائے گا۔کتابوں اور روایات میں طے شدہ ’’پارلیمانی جمہوریت‘‘ کے اصولوں کی روشنی میں اس سوال کا جواب صرف منتخب پارلیمان ہی سے کسی آئینی ترمیم کے ذریعے آنا چاہیے۔ لیکن نواز شریف اور ان کے حواری ’’گری تھی کل جہاں بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘‘ کے مصداق اقتدار کے نشے میں مست رہے اگر وہ اپنے چار سالہ دور میں پارلیمنٹ کے ذریعے آئین کی اس شق کی وضاحت ہی کروادیتے تو آج انھیں نااہلی کی مدت کی وضاحت کے لیے عدالتوں میں دھکے نہ کھانا پڑتے اور شاید مجھے کیوں نکالا کی گردان سے بھی وہ بچ جاتے ، لیکن جیسا کہ بزرگوں نے کہاہے کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود ہی اس میں گرتا ہے ، آج خود نواز شریف اپنے پیرومرشد کی جانب سے ارکان اسمبلی کو بلیک میل کرنے کے لیے بنائے گئے قانون کی لپیٹ میں آچکے ہیں، انھیں اس صورت حال کو مکافات عمل سمجھ کر برداشت کرنا چاہئے اور کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ان کی چہیتی بیٹی اوروفادار بھائی بھی اس طرح کے کسی قانون میں الجھ کر سیاست سے ہاتھ دھونے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ توہین عدالت کے مقدمے میںنہال ہاشمی کے خلاف آنے والا فیصلہ ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہئے۔