اسلام میں سلام کرنے کی اہمیت و افادیت
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس بات کا رواج چلا آرہا ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لئے ایک دوسرے سے کہیں ۔ چنانچہ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ” سلام“ کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے ” سلام“ کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ”ترجمہ: اور جب تم کو کوئی ( مشروع طور پر) ”سلام“ کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں ”سلام “کرو(یعنی جواب دو) یا (جواب میں ) ویسے ہی الفاظ کہہ دو (تم کو دونوں اختیار دیئے جاتے ہیں)۔ “
قرآن مجید میں لفظ ”سلام“ کے لئے ’ ’تحیہ“ کالفظ مذکور ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ”حیاک اللہ“ کہنا ، (یعنی اللہ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے۔)چوں کہ زمانہ قبل از اسلام میں عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میںملتے تھے تو ایک دوسرے کو ”حیاک اللہ“ یا ” انعم اللہ بک عینا“ یا ” انعم صباحا“ وغیرہ الفاظ سے ”سلام“ کیا کرتے تھے ، اسلام نے اس ”طرزِ تحیہ“ کو بدل کر ” السلام علیکم “ کہنے کا طریقہ جاری کیا ، جس کے معنی ہیں : ” تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو۔“
علامہ ابن العربی ؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف” احکام القرآن“ میں لکھا ہے کہ لفظ” سلام “اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور ” السلام علیکم“ کے معنی ہیں : ”اللہ رقیب علیکم “ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہبان ہو۔
”اسلامی سلام“ کا اگر دیگر مہذب قوموں کے ”سلاموں“ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ” اسلامی سلام“ جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ”سلام “اتنا جامع نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ” اسلامی سلام“ میں صرف موانست و اظہارِ محبت ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اس میں ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاءکرتا ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ آپ کو تمام آفات و بلیات سے سلامت رکھے۔“ پھر دعاءبھی عرب لوگوں کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ ”حیاتِ طیبہ“ ( یعنی تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہنے ) کی دعاءہوتی ہے ، اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ میں اور آپ ¾ ہم دونوں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اورہم دونوں ایک دوسرے کو نفع اور ضرر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچاسکتے ۔ اس معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ کلمہ (سلام) ایک عبادت بھی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔
اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعاءمانگ رہا ہے کہ میرے ساتھی کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ فرمادے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہیں اور میں تمہاری جان ، مال ، اور آبرو کا میں محافظ ہوں ۔
حضور نبی کریم نے مسلمانوں کے باہمی ”سلام“ کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور اس عمل کو سب اعمال سے افضل قرار دیا ہے اور اس کے فضائل و برکات اور اس کا (خوب) اجر و ثواب بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک نے ارشاد فرمایا: ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم مو¿من نہ ہو ، اور تمہارا ایمان (اس وقت تک) مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی ، وہ یہ کہ آپس میں” سلام“ کو عام کرو ، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔“ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ : ” ایک شخص نے رسول اللہ سے دریافت کیا : ” اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟۔“ آپ نے فرمایا : ” تم لوگوں کو کھانا کھلاو¿ اور سلام کو عام کرو چاہے تم کسی کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔“ ( بخاری و مسلم)
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو ”سلام“ کرنے میں ابتداءکرے۔ “ ( ترمذی ، ابو داو¿د ، مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا : ” سلام“ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے ، اس لئے تم آپس میں ”سلام“ کو عام کرو ، کیوں کہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور اہل مجلس کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے ، کیوں کہ اس نے سب کو ”سلام“ (یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائی) اگر مجلس والوں نے اس کے ” سلام“ کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کے ”سلام“ جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتے)۔(مسند بزار ، معجم کبیر )
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ” بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔“( طبرانی ، معجم کبیر)
آنحضرت کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ صرف ا س ایک روایت سے ہوجاتا ہے جو طفیل بن ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لئے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو ”سلام“ کرکے عبادت کا ثواب حاصل کیا جائے ، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا ۔ ( مو¿طا امام مالک)
ایک مرتبہ آنحضرت کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ!“آپ نے اس کے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ ۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ” السلام علیک یا رسول اللہ ورحمة اللہ۔“ آپ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔“ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ” السلام علیک یارسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ ۔“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ : ”وعلیک“ ارشاد فرمایا ، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! : ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ! پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعاءکے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ” وعلیک“ پر اکتفاءفرمایا ۔“ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : ” تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ، تم نے سارے ہی کلمات اپنے” سلام“ میں جمع کردیئے ، اس لئے ہم نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفاءکرلیا ۔( ابن جریر و ابن ابی حاتم)
ویسے تو جمہور علماءکے نزدیک ”سلام“ میں ابتداءکرنا” سنت غیر مو¿کدہ“ ہے لیکن بعض علماءاسے ” سنت مو¿کدہ “ کا درجہ دیتے ہیں جو کہ واجب کے قریب قریب ہوتا ہے تاہم اس کا جواب دینا بہر حال واجب ہے، بلکہ حضرت حسن بصریؒ سے تو یہاں تک مروی ہے کہ” سلام“ کا جواب دینا فرض ہے۔(تفسیر بحر محیط)
سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے ، اور پیدل چلنے والابیٹھنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے ”سلام“ کرنے والے کے لئے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لئے بھی ۔ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ : ” جب ایک ہی مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ اسے” سلام“ کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت ”سلام“ کرنا مسنون( اور ثواب کی چیز )ہے اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی ”سلام “ کرنا مسنون اور ثواب کی چیز ہے۔“ ( ابو داو¿د)
یاد رہے کہ چند صورتوں میں ”سلام “کرنا اور اس کا جواب دینا سخت منع ہیں : (۱) نماز پڑھتے ہوئے ۔ (۲) خطبہ دیتے ہوئے ۔ (۳) قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ (۴) اذان دیتے ہوئے ۔ (۵) اقامت کہتے ہوئے ۔ (۶) دینی کتابوں کا درس دیتے ہوئے۔ ( ۷) اور وضوءاستنجاءکرتے ہوئے وغیرہ۔ان تمام صورتوں میں ”سلام“ کرنایا ”سلام“ کا جواب دینا دونوں سخت منع ہیں۔