ماضی کا کبوتر با ز،آج کا ڈان
شیئر کریں
گرفتاری کے ایک سال بعد بھی سنگین جرائم کی سزا نہیں مل سکی
1977میںلیاری کے محلہ افشانی گلی میں فیض محمد عرف فیضو ماما کے گھر لڑکا پیدا ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ فیضو ماما منشیات فروشی کرتا تھا مگر بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس نے منشیات فروشی ترک کر دی اور ایک ٹرانسپورٹر بن گیا مگردنیا کی یہ ریت ہے کہ جب ایک بار آدمی سے غلط کام جانے انجانے میں سرزد ہوجائے اور بعد میں وہ اسے ترک بھی کردے تو بھی غلط لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کبھی باتوں سے ، کبھی طعنوں سے ، کبھی تہمتوں سے تو کبھی الزام تراشی سے اس کا پیچھا تب تک کرتے ہیں جب تک قبر اس شخص کو اپنی آغوش میں نہ لے لے۔ فیضو ماما کے بیٹے نے جب چلنا پھرنا شروع کیا ، اس وقت لیاری میں سردار عبدالرحمن بلوچ عرف ڈکیت کے والد داد محمد عرف دادل کا راج تھا۔ بعد ازاں دادل کو 1979میں جیل ہوگئی اور جیل میں ہی اس کی موت ہوئی جس کی وجہ خود کشی معلوم ہوئی تھی ، بعد میں عبدالرحمان عرف ڈکیت کو حاجی لالو نے پالنا شروع کیا ۔ اس زمانے میں بابو ڈکیت اور حاجی لالوکا اثر و رسوخ شروع ہوگیا تھا ۔حاجی لالو جیل چلا گیا اور پھر منشیات کا کام حاجی لالو کے بیٹے ارشد عرف پپو اورعبدالرحمان بلوچ عرف رحمن ڈکیت نے سنبھال لیا۔ فیضو ماما کا بیٹا نہایت پسماندہ ماحول سے عہد طفولیت سے نکلا تو اپنے محلہ میں کبوتر باز مشہور ہوا ۔نگاہیں اس کی آسمان پر جمی رہتی تھیں ۔پیسہ ، شہرت اور معاشرتی قد کاٹھ حاصل کرنے کے لیے فیضو ماما کے بیٹے نے 2001میں 24سال کی عمر میں سیاست میں قدم رکھا اور پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن میں لیاری یو سی سے ناظم کا الیکشن لڑا جس میں اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔گو کہ فیضو ماما نے منشیات فروشی ترک کر دی تھی مگر جرائم پیشہ افراد کو کہاںیہ منظور تھا کہ کل ان کے ساتھ جرائم میں پیش پیش فیضو باعزت روزگار کمائے ۔حاجی لالو کے بیٹے ارشد عرف پپو اور عبدالرحمان عرف ڈکیت کے درمیان ٹرانسپورٹرز سے بھتوں کے تنازع پر جھگڑا ہوا، ایسے ہی ایک جھگڑے میں ارشد پپو نے لی مارکیٹ سے ایک ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو کو بھتہ نہ دینے پر2003میں اغوا کیا اور پھر قتل کردیا۔ فیضو کا یہ کبوتر باز بیٹا اس وقت 26سال کا تھا۔14سال کی عمر میں لالچ کی انتہا کو چھونے والے فیضو ماما کے بیٹے نے 26سال کی عمر میں پہلی بار جرم کی دنیا میں ایک معمولی جرم کر کے قدم رکھا۔اپنے والد فیض محمد عرف فیضو کے قتل کا بدلہ لینے اور لالچ میں یہ کبوتر باز اشتہاری بن گیا۔یہ کبوتر باز جرم کی دنیا میں اتنا آگے چلا گیا کہ دنیا کے بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ فیضو کا کبوتر باز بیٹا اب عبدالرحمن عرف ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کر چکا تھا ۔ اس کبوتر بازنے لیاری میں وہ تباہی مچائی کہ ہر کسی کی زبان پر اسی کا نام تھا۔ ان جرائم کی پاداش میں اس کبوترباز کے خلاف 2004اور 2005میں دس مقدمات درج کیے گئے۔ 2005میں ایس پی چودھری اسلم نے اس کبوتر باز کو سجاول سے گرفتارکیا تھا۔2008میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعت کی کاوشوں سے اس کبوتر باز کو جو اب ایک بڑا مجرم بن چکا تھا ، پیرول پر رہائی ملی ۔آپ یہاں سے ہی دیکھ لیں کہ وہ سیاسی جماعتیں جنھیں ہم تخت و تاج اپنے ووٹ کے ذریعے فراہم کرتے ہیں وہ کن لوگوں کو سپورٹ کر کے کیا کیا کام لیتے ہیں۔ اس سیاسی پارٹی کی کوششوں سے ماضی کا یہ کبوتر باز جیل سے رہائی کے بعد پیپلز امن کمیٹی کا سربراہ بن گیا ۔ایک عرصہ تک لوگوں کا سکون تباہ کرنے والا یہ کبوتر باز پیپلز امن کمیٹی کا سربراہ بننے کے بعد سماجی اور فلاحی کام شروع کر دیئے ،فیضو ماما کے اس بیٹے نے سماجی کاموں کو بنیاد بنا کر اپنے آپ کو سیاسی شخصیت کے طور پر ابھارنا شروع کردیا۔
2009میں عبدالرحمن بلوچ عرف ڈکیت تین ساتھیوں سمیت ایس ایس پی چودھری اسلم اور ان کی ٹیم سے مقابلے میں مارا گیا۔لیاری میں عبدالرحمن بلوچ کی رسم چہلم پر عبدالغفار بلوچ عرف چھوٹا چھتری نے عبدالرحمن کی وصیت پڑھ کر سنائی جس کے تحت فیضو ماما کے اس بیٹے کو لیاری کا نیا سردار بنا دیا گیا۔فیضو ماما کے اس بیٹے نے تمام گروہوں کو یکجا کیا اور مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔فیضو ماما کے اس بیٹے کی طاقت دیکھتے ہوئے سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے اس سے میل جول بڑھانا شروع کے دئیے لیکن اس نے دوستی کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو جھٹک دیا ۔ اس کے بعد لیاری آپریشن شروع ہوا جو آٹھ دن تک جاری رہا جس میں لیاری کے معصوم باسیوں سمیت لیاری گینگ کے 54کارندے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جب کہ آٹھ پولیس افسران اور جوان اپنی جان لٹا بیٹھے۔
2012میں پولیس نے اس گینگسٹراور اس کے ساتھیوں پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق اور اسلحہ کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا جو بی ایل اے کے گرفتار ملزم کے بیان کی روشنی میں عائد کیا گیا۔ 2013میں لیاری کے ایک گینگ لیڈر ارشد عرف پپو کو بھائی اور ساتھی سمیت اغوا کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور لاشوں کی بے حرمتی کے بعد انھیں جلا کر لاش کے ٹکڑے کر کے سیوریج لائن میں بہا دئیے گئے جس کا ایکشن عدالت نے بھی لیا جس پر اس میں ملوث چار پولیس افسران کو بھی گرفتار کیا گیا جب کہ اس وقت لیاری کی قومی اسمبلی کی نشست سے جیتنے والے شاہ جہان بلوچ بھی اس مقدمے میں نامزد ہوئے ۔ ارشد پپو کے قتل میں اس گینگسٹر کو ملوث بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس گینگسٹر کو پولیس نے اشتہاری قرار دیا ۔اس کے باوجود بھی اس گینگسٹر کو منانے کی کوشش کے لیے مسلسل ایک سیاسی جماعت کی جانب سے دوستی کے ہاتھ بڑھائے گئے آخر کار اس گینگسٹر نے مطالبہ رکھا کہ عام انتخابات میں ایم این اے او رایم پی اے کا امیدوار لیاری کا ہونا چاہیے جسے مانا گیا اور اس طرح عام انتخابات میں اس گینگسٹر کا نامز د امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد لیاری میں کارروائیاں تیز ہوئیں اور لیاری گینگ وار کے گروپوں میں پھر سے اختلافات شروع ہونے لگے ۔اس گینگسٹر کا سب سے اہم کمانڈر بابا لاڈلہ ہی اس کا سب سے بڑا مخالف بن گیا جس سے لیاری میں پھر سے گینگ وار شروع ہوئی ۔ اس دوران یہ گینگسٹر روپوش ہوگیا تو مخالف گروپ کے کارندوں نے اس کے ساتھی ظفر بلوچ کو بھی قتل کردیا اور اس کے بعد یہ گینگسٹر ملک سے فرار ہو گیا ۔ بعد ازاں بابا لاڈلہ بھی شہر سے فرار ہوگیا ۔ لیاری کایہ ڈان ، گینگ وار کا سرغنہ ، کالعدم پیپلز امن کمیٹی کا سربراہ، گینگسٹراور ماضی کا کبوتر باز سردارعزیر بلوچ کے نام سے جانا جاتا ہے جو 30جنوری کو کراچی میں پکڑا گیا ۔انتقام کی آگ میں جلنے اور پیسوں کی لالچ میں پلنے والے عزیر بلوچ پر قتل، اغوا ، بھتہ خوری،اقدام قتل اور اغوا برائے تاوان کے مختلف تھانوں میں 100سے زائد مقدمات درج ہیں اور اس کی گرفتاری کے لیے اس کے سر کی قیمت 20لاکھ روپے مختص کی گئی۔لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گرفتار ی کو ہونے آیا ہے تاہم ابھی تک عزیر بلوچ کے خلاف کیسوں پرکوئی حتمی فیصلہ نہیں آسکا نہ سزا ہوئی۔