اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈائیلاگ کی قابل عمل تجویز
شیئر کریں
لندن روانگی سے قبل خادم اعلیٰ پنجاب نے ایک بیان میں وہی تجویز دہرائی ہے جو سینیٹ کے چیئر مین رضاربانی بہت پہلے پیش کرچکے تھے کہ ملک کے تمام مقتدر اداروںیعنی اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈائیلاگ ہونے چاہئیں تاکہ تمام ادارے اطمینان وسکون سے اپنے فرائض ادا کرسکیں اور ملک سے غیر یقینی کی صورت حال اور اقتدار کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوسکے ، سینیٹ کے چیئرمین میاں رضاربانی نے جب یہ تجویز پیش کی تھی تو مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر ناک بھوں چڑھائی گئی تھی لیکن اب شہباز شریف کی جانب سے اس تجویز کے پیش کیے جانے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ شریف خاندان کے سر سے میں نہیں تو کوئی نہیں کا بخار سر سے اترتاجارہا ہے اورکم از کم شہباز شریف نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں، بہر طور صورت حال کچھ بھی ہو شہباز شریف کی یہ تجویز بڑی صائب ہے کہ ملک کے اہم اداروں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے تا کہ ترقی کا عمل جاری رہ سکے اور پاکستان کی ترقی کی خاطر گفتگو کرنا تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہے۔ عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان اس بارے میں گفتگو ہونی چاہیے، پاکستان کے لیے یہی ایک بہتر راستہ ہے کیونکہ جب تمام اکائیاں مل کر ترقی کریں گی تو یہ پاکستان کی ترقی ہو گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ شہباز شریف نواز شریف کے مقابلے میں زیادہ معاملہ فہم انسان ہیں اور وہ دو قدم آگے بڑھنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ،اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ شہباز شریف معاملہ فہمی اور حالات کے مطابق ہوا کے رخ پر چلنے کی حکمت عملی کی وجہ سے ہی پنجاب میںمسلم لیگ کا قلعہ مضبوطی کے ساتھ ابھی اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہے، ورنہ اس سے پہلے تو یہ عام سی بات تھی کہ جیسے ہی حکومت غیر مستحکم ہوئی اس کے اپنے ہی اراکین اسمبلی تتر بتر ہو کرنئے آشیانوں پر جا کر بیٹھ جاتے تھے۔ مگر اس دفعہ شہباز شریف نے کمال ہوشیاری سے اپنے اراکین کو ابھی تک اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔
اگرچہ اداروں کے درمیان گفتگو کی شہباز شریف کی تجویز کو معنی خیز کہا جا سکتا ہے لیکن اس وقت نواز شریف بلکہ پورے شریف خاندان کو جس صورتحال کاسامنا ہے اور نواز شریف اور ان کے بچوں کواپنی ہی حکومت میں جس طرح احتساب کے چکر میں پیشیاں بھگتناپڑرہی ہیں اور ان کی کوئی بھی استدعا نہیں مانی جا رہی اورروز روز کی یہ پیشیاں ان کی پریشانی میں اضافہ کر رہی ہیںشہباز شریف اگر اداروں کے درمیان مذاکرات کے ذریعہ کم از کم اگلے عام انتخابات تک کے لیے سہی مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں تو میاں نواز شریف سمیت تمام مسلم لیگیوں اور مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعتوں کو ان کا ساتھ دینا چاہئے ۔یہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی دیگر بڑی جماعتوں کو بھی شہباز شریف کی اس تجویز کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کی حمایت کرنی چاہئے،کیونکہ عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان ملکی مفاد کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل کی تجویز پر عملدرآمد سے ملکی اداروں کے درمیان بہتر اور مضبوط تعلقات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اوریہ تعلقات موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد بھی جو عنقریب نظر آرہاہے دوسری برسراقتدار آنے والی پارٹیوں کے لیے بھی معاون ومددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم شہباز شریف کی اس تجویز کو قابل عمل بنانے اوراس کی جانب پیش رفت ممکن بنانے کے لیے تمام اداروں کو مل کر بیٹھنا پڑے گا اور ملک کو موجودہ سیاسی اور عالمی طور پر درپیش گمبھیر صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا پڑے گا جو سب کے لیے قابل قبول بھی ہو اور قابل عمل بھی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نواز لیگ کی مرکزی قیادت میں شہباز شریف اور چوہدری نثار ہی وہ دو اہم شخصیات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک نواز لیگ کی حکومت قائم ہے اگر ان دونوں صلح کن اور صلح جو حضرات کو نواز لیگ سے الگ کر دیا جائے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح کی عیاں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی پہلے دھرنے میں ہی رخصت ہو جاتی۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ نواز لیگ کا ووٹ بینک اب تک میاں نواز شریف کی ذات سے ہی منسلک ہے لیکن وہ خود چونکہ انتہائی ضدی طبیعت کے ہیں اس لیے مختلف اداروں کے بارے میں لچک نہ ہونے کی وجہ سے معاملات ان کے کنٹرول سے باہر ہوگئے اور انھیں بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔اب شہباز شریف ایک بار پھر متحرک ہیں جس میں وہ حتیٰ المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی بر سر اقتدار رہے اور سینیٹ کے الیکشن خیر خیریت سے ہو جائیں جس میں ان کی جماعت کو واضح اکثریت مل جائے گی۔اس طرح اگر اگلے الیکشن میںنواز پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں بھی آسکی تو بھی ایوان ِ بالا میں بیٹھ کر وہ اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر سکتی ہے، جیسا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کر رہی ہے لیکن سوال یہ کہ کیا موجودہ حالات میں یہ ممکن ہوسکے گا کہ مارچ تک ملک کی سیاسی صورتحال جوں کی توں رہے اورنواز لیگ منصوبے کے مطابق سینیٹ میں اپنی اکثریت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے۔یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔تاہم فی الوقت کوئی ایسی صورت بھی نظر نہیں آ رہی کہ سینیٹ کے الیکشن نہ ہو سکیں کیونکہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے بارے میں افواہوں کو فوج کی جانب سے پہلے ہی رد کیا جا چکا ہے لیکن قومی حکومت کی قیاس آرائیاں موجود ہیںاور اس کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں اور قومی حکومت وجود میں آنے کی صورت میں سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کی اکثریت قائم کرنے کاخواب چکناچور ہوسکتاہے لیکن قومی حکومت اسی وقت بن سکے گی جب تمام اسٹیک ہولڈرز اس پر متفق ہوجائیں اور قومی حکومت کی قیادت کے لیے بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے ہوجائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں اورخود مسلم لیگی رہنما شہباز شریف کی اس تجویز کی کس قدر حمایت کرتی ہیں اور شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو اس پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں؟۔