ماں کاگھررکناضروری ہے
شیئر کریں
احمد اعوان
یہ تین کمروںکاایک فلیٹ ہے،اس میں6لوگ رہتے ہیں،ماما،بابااوران کے چاربچے ،بچوںمیں تین بیٹے اورایک بیٹی شامل ہے۔ تینوں بھائیوں کی عمروں میں2,2سال کافرق ہے جبکہ ان کی بہن کی عمر17مہینے ہے۔باباجان ایک کمپنی میں ایک شعبے کے ڈائریکٹرہیں،ان کی ماہانہ تنخواہ 55ہزارروپے ہے،جب ان کے گھر پہلا بچہ پیدا ہو اتب باباکی تنخواہ 35 ہزار تھی، دوسرے بچے کی مرتبہ تنخواہ 40ہزارہوچکی تھی، تیسرے کی پیدائش پر تنخواہ 45 ہزار تھی اوربیٹی کے پیداہونے تک تنخواہ 50 ہزار تھی۔ہرسال کابونس اورایک اعلیٰ نجی اسپتال میں علاج معالجے کی اضافی سہولیات بھی میسر ہیں، باباکے اپنے ماما،بابااب اس دنیامیںنہیں،2بھائی ہیں جواپنے اہل وعیال کے ساتھ جاپان میں رہتے ہیں۔بچوں کی ایک پھوپھی ہیںوہ اسلام آباد میں شوہرکے ساتھ رہتی ہیں،باباکافرضی نام حمزہ سوچ کربات کرتے ہیں۔حمزہ صاحب خود ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،والدین نے انہیںبہت محنت سے اوراپناپیٹ کاٹ کر پڑھایا۔ حمزہ صاحب کے والد کام پرجاتے تھے لیکن ان کی والدہ صاحبہ گھرپررہتی تھیں،اوراپنے بچوں کی دیگرضروریات کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔اکثروالدہ صاحبہ کئی سال تک اپنے شوہرکی طرح عیدپرنئے کپڑے نہیںسلواتی تھیںتاکہ یہ پیسے بھی بچوںکی تعلیم پرخرچ ہوسکیں،بچے اسکول سے گھرآتے توماںان کی تربیت شروع کردیتی تھی،کھاناکھاتے ہوئے لقمہ کتنابڑاہو؟نوالہ کیسے بناتے ہیں؟ہاتھ کی پہلی دوانگلیوں اورانگوٹھے کی مددسے نوالہ بنانے کی تلقین، کھاتے ہوئے منہ سے آوازنہ آئے،پانی آخرمیںپیاجائے،اپنی پلیٹ صاف کرناسنت ہے، کھانا شروع کرنے سے قبل بسم اللہ پڑھنا، کپڑوں پر کوئی داغ نہ لگے،صفائی نصف ایمان ہے،چلتے ہوئے نیچی نگاہ رکھنی چاہیے ،دوسری لڑکیوں کوبھی اپنی بہن کی نظر سے دیکھناچاہیئے ،الغرض حمزہ صاحب کی اماں جان اپنی ذات میں ایک مکمل ضابط حیات کاچھپاہوا کتابچہ تھیں۔یہ تووہ باتیں ہیں جو انہوںنے حمزہ صاحب اوران کے بھائیوںکی تربیت کرتے ہوئے اپنائی تھیں،بیٹی کی تربیت کیسے کی ہوگی؟لڑکوںکی تربیت کااحوال پڑھ کرآپ اندازہ کرسکتے ہیں؟حمزہ صاحب کواپنی اہلیہ سے ایک شکایت ہے،بلکہ حمزہ صاحب کوایک بہت بڑی مشکل کاسامنا ہے، وہ کہتے ہیںکہ میرے بچے کراچی کے سب سے اچھے اسکولوںکی صف میںشامل ایک اسکول سے تعلیم حاصل کررہے ہیںلیکن ان کوکوئی سلیقہ نہیں،بلکہ سلیقہ کہتے کسے ہیںانہیںیہ بھی معلوم نہیں،کھاناکھاتے ہیںتومیں ان کامنہ تکتارہتاہوںکہ یاخدایاکیسے کھارہے ہیں؟چلتے ہیںتومیںسمجھاسمجھاکرتھک گیا لیکن ان کی چال درست نہ ہوئی،بس فاصلہ طے کرلیتے ہیںلیکن کیسے ،یہ نہ پوچھو،کسی سے ہاتھ ملاتے ہیںتومنہ شرماتے ہوئے دوسری طرف کردیتے ہیں،لاکھ بارسمجھایابیٹاسامنے والے کی طرف دیکھ کرسلام کاجواب دیاکرولیکن کچھ نہ اثر ہوا، بس ہاتھ ملانے کوسلام سمجھتے ہیں،منہ سے کچھ نہیں بولتے، ایک طویل فہرست ہے حمزہ صاحب کے پاس اپنے بچوںکی بے تربیتی پرمبنی ،ہم نے ان سے انتہائی احتیاط سے دریافت کیا کہ کیابھابھی صاحبہ بچوںکی تربیت پردھیان نہیںدے رہی ہیں؟حمزہ صاحب کے جواب میںیقین کریںتمام تر فکر مندیوں کاجواب مل گیا،بولے وہ اسی اسکول میں پڑھاتی ہیںجہاںبچے پڑھتے ہیں۔ہم نے چونک کر پوچھا بھائی اس دوران چھوٹی مہک کہاںرہتی ہے؟کہنے لگے اسے ایک مونٹیسری میں داخل کروادیا ہے، سارا دن وہیںکھیلتی کودتی ہے۔ننھے بچوںکے اسکول میں ماسی کی بھی سہولت دستیاب ہے وہ ہرطرح سے مہک کاخیال رکھتی ہے۔ ہم نے عرض کیاگویاماںکی ممتا، اس کی خوشبو،اس کے لمس اور ماں کے دودھ کامتبادل ماسی ہے؟بولے نہیں۔۔ لیکن مہک اب ماسی سے اتنی مانوس ہوچکی ہے کہ ہفتہ اتوار کوبھی اس کے پاس جانے کی ضد کرتی ہے (مسکراتے ہوئے)۔مجھے ہاتھ ماتھے پررکھادیکھ کر حمزہ کہنے لگا تمہیں کیاہوا؟ میں نے اس کے چہرے پرنگاہ ڈالی وہ بالکل اطمینان سے سامنے بیٹھامجھے سوالیہ نظروںسے دیکھ رہاتھا۔میں حیران تھاکہ اس پڑھے لکھے جاہل کواب بھی میں سمجھاﺅںکہ تمہاری تمام پریشانیوںاورفکروںکی اصل وجہ کیا ہے۔ میں نے کہا بھائی بھابھی کیوںنوکری کرتی ہیں؟اس نے جواب دیا،ارے کمال کرتے ہو!اگروہ میراساتھ نہ دے تومیںایک مہینہ نہ بسرکرسکوں،ہم نے پوچھا کیسے؟وضاحت فرمانے لگے؟تینوںبچوںکی ماہانہ فیس 12ہزارہے ،وین والے کو6ہزاردیتے ہیں، 5 ہزار تک دیگرضروری اخراجات کی مد میں بچوں پر ہر مہینے خرچ کرناپڑتے ہے ،بیٹی کومیں خود ڈراپ کرتا ہوں لیکن مونٹیسری کی فیس 4500ہے۔ہرمہینے 15000کاراشن ڈالتے ہیں،سبزی اورگوشت پر 8 ہزارالگ خرچ ہوتے ہیں، پھر کپڑے ،جوتے، گاڑی کاڈیزل اس کی مرمت کاخرچہ،کسی کی شادی آجائے توبس اللہ پاک جانتاہے یاہم کہ کیسے شادی میںشرکت کرنے کوباعزت طریقے سے ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے باوجودمیں نے جاپان والے بھائی جان سے پچھلے سال عیدسے پہلے 2لاکھ ادھارلیے تھے کیونکہ گھرمیں کچھ مرمت کا کام اوررنگ وغیرہ کرواناتھا۔۔اورتم کہتے ہوبھابھی نوکری کیوںکرتی ہیں؟یہ بچوںکی فیس کم اس لیے ہے کہ اسکول کی پالیسی کے مطابق ملازمین کے بچوں کی فیس میں رعایت دی جاتی ہے ،ورنہ ہم کہاں، اس اسکول میں بچے پڑھاسکتے تھے؟
میںنے کہا توپھربچوںکی تربیت کی فکر چھوڑدو کیونکہ یاتومن چاہی زندگی جی لویابچوں کواعلیٰ اخلاقی اوصاف کاحامل بنالو۔ ہرکام مرداکیلانہیں کرسکتا، بچوںکی تربیت کے لیے اس کی شریک حیات ہوتی ہے جوگھرمیںرہ کرتربیت کے لوازمات کومکمل کرتی ہے لیکن اگرگھرمیںکوئی نہ رہے ،صبح باپ اوربچوںکے ساتھ ماںبھی گھرسے نکلے گی توشام میں سب تھک چکے ہوںگے ،اس صورتحال میں تربیت کہاںسے ہوگی۔ ہفتے میں جوایک دودن فرصت کے ملتے ہوںگے ، ان میں تم سب گھروالے مل کرصفائی کرتے ہوگے یاکپڑے دھوتے ہوگے، اس نے کہا ہاںایساہی ہوتاہے لیکن اگرتمہاری بھابھی پڑھاناچھوڑدے توبہت مسائل پیداہوجائیںگے تم ان مسائل کونہیں سمجھ سکتے ۔میں نے کہا تمہارے والد صاحب نے 4بچے اسی ملک میں رہتے ہوئے صرف 12ہزارمیںجوان کیے اوران کو پڑھایا بھی، آج تم سب بھائی الحمداللہ خوش وخرم زندگی بسر کر رہے ہو،تم نے پیلے اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن آج تم کسی طرح بھی اس زمانے کے ان اسکولوں کے طلبہ سے کم نہیں جہاں امیروںکے بچوںنے تعلیم حاصل کی تھی۔تم اپنے ماہانہ راشن سے ان تمام فضولیات کوختم کردوجوتم نے اپنارکھی ہیں، مثلاً مشروب کی بوتلیں، کیچپ، مائینز، جام ، مختلف اقسام کی تیارشدہ اشیاءجن کوصرف تلنے سے یااوّن میںرکھنے سے وہ پک جاتی ہیں۔حمزہ بولاتوتمہارے خیال میںشام میںگھرآکرہم سبزی پکایا کریں؟ہم نے عرض کی دیکھوبھائی ہر چیز اور سہولت کی ایک قیمت ہوتی ہے اگرتم صرف اعلی تعلیم دیناچاہتے ہوتواوربات ہے لیکن اگرتمہارے نزدیک بچوںکی تربیت بھی ایک ضروری عنصر ہے تواس کے لیے بھابھی کوگھرپررکناپڑے گا ۔2 سہولیاتِ زندگی یعنی تربیت اوراعلی طرززندگی ایک ساتھ میسر نہیںآسکتی، تمہارے بچے صبح میںجام اورڈبل روٹی کھاتے ہیں،تمہیںاندازہ ہے اس عمرمیں ان کے لیے گندم کتنی ضروری ہے ؟تمہیںبچپن میں پراٹھا ملتا تھا؟ سوچو اگر تمہاری اماںجی بھی نوکری کرتی توپراٹھاملتا؟ حمزہ زندگی میں ہرچیزایک قیمت کے تحت ملتی ہے، کل تمہارے ماںباپ نے اپنی ذات مٹا کرتمہیں اس قابل بنایاکہ آج تمہیںدنیااورآخرت دونوں گزارنے کے لائق فراہم کردیںلیکن آج تم اپنے بچوں کو صرف تعلیم دے رہے ہوجس سے صرف سرمائے کا حصول ممکن ہوسکے گا۔یہ تعلیم اخلاق ، اعلی اوصاف، اخلاقی قدریںاورتمام دیگر رسومات جوہمارے معاشرے کاحصہ تھیں،دینے سے بالکل قاصر ہے۔ لہٰذا اس بات کوسمجھوکہ ہر عمر میں بچوں کو دینے کے لیے الگ چیزیںہوتی ہیں اوراس عمرمیں جس میں آج تمہارے بچے ہیں، اس عمر میں بچوں کو ماں اور تمہارے وقت اورتوجہ کی ضرورت ہے، سہولیات کی نہیں۔انہیںآج جس ایک چیزکی ضرورت ہے اسے تربیت کہتے ہیں،اوروہ ماںکے گھرپرمکمل وقت دینے سے ملتی ہے اوریہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔