میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خطے میں حتمی جنگ کا بگل بج گیا

خطے میں حتمی جنگ کا بگل بج گیا

ویب ڈیسک
پیر, ۲ مارچ ۲۰۲۰

شیئر کریں

مشرق وسطی جو پہلے ہی ایک بڑی جنگ کے دھانے پر پہنچا ہوا ہے ترکی کی شام میں عسکری مداخلت کے بعد اس نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے وزراء خارجہ نے شمالی شام میں ترکی کی فوجی مداخلت کی مخالفت کردی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے ترکی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر شمالی شام سے نکل جائے کیونکہ اس کی وجہ سے شامی عوام کے مصائب میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس 12اکتوبر کو قاہرہ میں منعقد کیا گیا تھاتنظیم کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اس اجلاس کی سربراہی کی جس میں ترکی کی جانب سے شمالی شام میں پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامئے میں ترکی کی اس کارروائی کو ایک عرب ریاست کی خودمختاری پر ضرب لگانے اور اس کے خلاف عسکری جارحیت کے مترادف قرار دے کر اس کی سخت مذمت کی گئی۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اپنے خطاب میں کہا کہ عرب لیگ کی جانب سے اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ ترکی کو سفارتی، معاشی اور سیاحتی پابندیاں لگانے جیسے اقدامات کے بارے میں سوچ رہی ہے۔جبکہ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ شام دوباری عرب ممالک کی صف یعنی عرب لیگ میں شامل ہو۔تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے اس موقف کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت کی عرب لیگ میں واپسی مشروط طور پر ممکن ہے اس کے لیے شامی حکومت کو اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔عراقی وزیر خارجہ عامر عبدالحکیم نے کہا کہ ان کا ملک جلد شام کی عرب لیگ میں واپسی کی درخواست دے گا۔سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام کے تنازعے کے حل لیے سیاسی کوششوں کا خواہاں ہے اور سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ شام سے تمام غیر ملکی قوتیں نکل جائیں۔

عرب لیگ کے ممبر ممالک کی جانب سے ترکی کے خلاف اجلاس بلانے سے قبل امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک بھی ترکی کی شام میں مداخلت کے خلاف بیان دے چکے تھے۔ ترکی کی مسلح افواج اور اس کی اتحادی شامی حزب اختلاف کی عسکری تنظیم امریکا کی اتحادی شامی جمہوری فورسزSDFکے خلاف یہ کارروائی کررہے ہیں۔ ترکی کا موقف ہے کہ وہ کرد باغیوں کو پیچھے دھکیل کر شمالی شام میں ایک محفوظ زون قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس علاقے میں شامی مہاجرین کو بسایا جاسکے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران اور سعودی عرب گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں خاصا توجہ کا محور رہا ہے جس میں یہ ہی کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم عمران خان سعودی حکومت کے مطالبے پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے جارہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں پاکستان اور ایران کی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تردید کردی کہ ان دوروں کا مقصد یہ نہیں ہے ۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’انہیں ایسے کسی ثالث کا علم نہیں ہے ہاں البتہ ایران یہ اعلان کرتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لیے براہ راست رابطہ بھی کیا جاسکتا ہے۔اس سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی اسی نوعیت کا اشارہ دیا تھا کہ ان کا ملک علاقائی امور کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔جبکہ اسی اثنا میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں منسلک تین یورپی ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ ’’اب واضح ہوچکا ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں ایران ہی ذمہ دار تھا اور اب اسے اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کے علاوہ علاقائی امور پر بھی بات چیت کرنا ہوگی‘‘۔ اس سارے معاملے میں حیران کن بات یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم پاکستان کا دورہ ایران اور سعودی عرب دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کرانا نہیں تھا تو پھر اس دورے کا ایجنڈہ کیا ہے؟ پاکستانی میڈیا میں ایک ہفتے سے جو خبریں گردش کررہی تھیں آخری دن پاکستانی اور ایرانی وزارت خارجہ کو اس کی تردید کیوں کرنا پڑی؟ جبکہ بظاہر اس اہم مقصد کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی۔۔۔ اور اگر اس اچھے کام کو ’’بیک ڈور ڈپلومیسی ‘‘ کی نذر کرنا مقصود ہے تو یقینا اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بہت عجیب بات ہے کہ جب پاکستان اور دیگر ملکوں کی جانب سے اس سلسلے میں پیش رفت کا آغاز ہونے لگا تو اسی دن بحیرہ احمر میں جدہ کی بندرگاہ سے چند میل دور ایرانی آئل ٹینکر کو دو میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یقینی سی بات ہے یہ سب کچھ ان قوتوں کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے جو خطے میں جنگ کو مزید ہوا دینے کی خواہش مند ہیں۔۔۔ اور ان قوتوں سے سب واقف ہیں۔

ترکی کی شمالی شام میں مداخلت سے قبل جب سعودی آئل ریفانری پر بڑا حملہ کیا گیا تو امریکا اور اس کے صہیونی مغربی اتحادیوں نے شور مچانا شروع کردیا تھا تاکہ سعودی عرب عجلت میں ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران پر حملہ آور ہوجائے لیکن اس نازک موقع پر سعودی قیادت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کو مزید جنگ میں جھونکنے سے اجتناب برتا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب عراقی عوام اپنی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے اور شام میں جنگ کا میدان زوروں پر تھا جبکہ سعودی عرب کے جنوب میں حوثی باغیوں کے ساتھ بھی جنگ جاری تھی اب اگر سوچا جائے کہ ایسے نازک حالات میں اگر سعودی عرب اور ایران بھی براہ راست آمنے سامنے آجاتے تو صورتحال کیا ہوتی۔

ان معاملات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ ان ہی نازک حالات میں خطے میں ایک نیا محاذ کھول چکا ہے یعنی عرب لیگ کی جانب سے شمالی شام کے علاقے میں ترکی کی مسلح مداخلت کے خلاف مذمتی بیانات۔ جہاں تک ترکی کے اس اقدام کا تعلق ہے تو عملی طور پر اس نے سب سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے معاملہ اگر شامی حکومت تک ہوتا تو شاہد کوئی بھی ترکی کے اس قدم کو آسانی سے ہضم نہ کرتا لیکن صورتحال یہ ہے کہ شام میں اس وقت امریکا، روس، ایران اور ایرانی نواز ملیشیات گھوسی ہوئی ہیں ہر طرف ایک چومکھی جنگ کا منظر ہے، داعش اور اس سے متعلق گروپ الگ موجود ہیں اس لیے ترکی کو حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنی سرحدوں کے تحفظ اور شامی مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اقدامات کرتا۔ اس حوالے سے عرب لیگ کا موقف بھی عجیب وغریب ہے کیونکہ جس وقت شام میں دنیا جہاں کی قوتیں داخل ہوئیں تو عرب لیگ کو شام کی بحیثیت عرب ملک کی شناخت یاد نہیں آئی لیکن جس وقت شمال کی جانب سے ترک فوج ایک محدود حد تک آگے آئی ہے تو امریکا یورپ سمیت سب کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ میں اس کی معیشت تباہ کردوں گا،مجھے امید ہے کہ ترکی عقل سے کام لے گا یہ (شامی) کئی دہائیوں سے آپس میں لڑ رہے ہیںبلکہ کئی صدیوں سے، یہ امریکا کے لیے ایک موقع ہے جس کے تحت ہم بڑا کام کررہے ہیں، آپ کو معلوم ہے میں عراق گیا تھاجہاں میں بہت سے جرنیلوں سے ملا ہوں اس لیے ہم مہینوں اور ہفتوں میں یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ ہم کردوں کو دیکھ رہے ہیںان میں سے کچھ گروپ بہت برے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں امید ہے کہ کرد بہتر ردعمل کا اظہار کریں گے، کرد نہیں کریں گے تو ترکی کرے گا‘‘۔

ٹرمپ کی اس گیڈر بھبکی میں چھپے جھوٹ کو بھی ہمیں سمجھنا چاہئے، ٹرمپ کہتا کہ کرد صدیوں سے لڑ رہے ہیں حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے ۔ یہ تمام علاقے تو خلافت عثمانیہ کا حصہ تھے جسے عالمی دجالی صہیونیت نے 1924ء کو ختم کردیا تھا اس کے بعد ان کردوں کو چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا جن میں بڑی تعداد چار ملکوں یعنی شام، عراق، ایران اور ترکی میں ہے جبکہ بے شمار کرد وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ اردن میں بھی آباد ہیں۔ نور الدین زنگی ؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا خود عراق کے صدر صدام حسین کا آبائی علاقہ تکریت شمالی عراق کے کرد علاقے سے ہے۔ اس میں سے عراق کے شمالی علاقے میں موجود کردستان میںبسنے والے کردوں نے کمیونزم اختیار کرلیا تھا اس گروپ کو پیشمرگہ کہا جاتا ہے جو مذہب کے خلاف تصور کیے جاتے ہیںان کرد گروپ کے امریکا، یورپ اور اسرائیل سے قریبی روابط رہے ہیں۔ مغرب کی صہیونی قوتوں کا خیال تھا کہ جس وقت ہم چاہیں گے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے اس پورے خطے کو غیر مستحکم کردیں گے۔کیونکہ یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس لیے ہمیشہ بین الالقوامی قوتوں کے درمیان کشمکش کا مرکز بنا رہا ہے پہلے عراق پر قبضہ جماکر اسے پلیٹ میں رکھ کر ایران کے حوالے کردیا گیا تاکہ عراق کے راستے اسے شام تک اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا موقع میسر آسکے اور ایسا ہی ہوا۔امریکا اور برطانیہ نے جان بوجھ کر شمالی عراق اور شام میں داعش کو مسلح ہونے کا موقع دیا، ان سے خلافت کے قیام کا اعلان کروایا گیا جس سے متاثر ہوکر ساری دنیا سے لوگ اس غلط فہمی میں ان میں شامل ہوگے کہ واقعی خلافت قائم ہوگی ہے لیکن جب وہاں ان جنگجوئوں کی بڑی تعداد جمع ہوگی تو ان پر حملہ کر دیا گیا ۔ یہ چوہے بلی کا کھیل امریکا اور اس کے صہیونی دجالی مغربی اتحادی جان بوجھ کر کھیلتے ہیں ۔ جو لوگ اس خطے کی عبرت ناک تاریخ سے واقف نہیں وہ جان لیں کہ جس وقت سائیکس پیکو معاہدے کے تحت خلافت عثمانیہ کے عرب ترکے کی بندربانٹ کی جارہی تھی اس میں جان بوجھ کر کردوں کو دربدر کرنے کے لیے انہیں خطے کے چار بڑے ممالک میں تقسیم کردیا گیا تھا تاکہ یہ یہاں کی مقامی حکومتوں کے لیے مسلسل دردسری بنے رہیںیہ سزا اس قوم کو اس لیے دی گئی تھی کہ ان میں صلاح الدین ایوبی ؒ اور نورالدین زنگی جیسے مجاہدین اسلام پیدا ہوئے تھے جنہوں نے سینکڑوں برسوں تک صلیبیوں کو اس خطے میں قدم جمانے نہیں دیا تھا اور آخر میں بیت المقدس فتح کرلیا گیا تھا۔

اب دجالی منصوبے کے تحت ترکی کو سزا دینے کے لیے کوششیں تیز ہوں گی امریکا نے سعودی عرب کے تحفظ کے نام پر ہزاروں امریکی فوجیوں کو خطے میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے وہ درحقیقت اسی نئی جنگ کی پیش بندی ہے۔ذرا سوچین اگر سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ نہ کیا جاتا تو امریکا کو سعودی عرب میں فوجیں اتارنے کا جواز کہاں سے ملتا۔۔۔ آنے والے وقت میں امریکا کے ساتھ ساتھ اب دجالی صہیونی اتحاد نیٹو کی خطے میں دوبارہ آمد کی راہ ہموار کی جارہی ہے اس بڑی جنگ اک دوسرا بڑا میڈان جنوبی ایشیا میں ہوسکتا ہے اور اب جبکہ بھارت نے جارحیت اور دہشت گردی سے کام لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کے امکان مزید واضح ہوگئے ہیں۔اس ساری صورتحال میں پاکستان میں مولانا فضل الرحمن کا ’’آزادی مارچ‘‘ کے نام پر کھیل ایک غیر متعلقہ عمل سے زیادہ نہیں اس لیے اس کے نتائج خود فضل الرحمن کے لیے ’’حیران کن‘‘ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس ساری صورتحال میں پاکستان اس قسم کے ڈراموں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں