میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

منتظم
جمعرات, ۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
سینہ اورپیٹھ کے بالوں کوصاف کرنا
سوال:کیاسینے اورپیٹھ کے بال صاف کرسکتے ہیں یانہیں؟
جواب:سینے اورکمرکے بالوں کوصاف کرناجائزہے،لیکن ادب کے خلاف ہے،البتہ اگربال بڑھ جائیں اورتکلیف کاباعث ہوں توکچھ حرج نہیں۔(فتاویٰ ہندیہ ،کتاب الکراھیة،الباب التاسع عشر، 5/358، ط: رشیدیہ کوئٹہ)
زندگی میں اولادکے درمیان مال تقسیم کرنا
سوال:ایک آدمی کے پاس تیرہ لاکھ روپے ہیں، وہ اپنی اولادمیں تقسیم کرناچاہتاہے اپنی زندگی میں ،اہلیہ بھی زندہ ہے،تقسیم کیسے کریں؟
جواب:زندگی میں اولادکے درمیان مال وجائیدادکی تقسیم ہبہ(گفٹ )کہلائے گی،اورہبہ میں تمام اولادکے درمیان برابری کرنی چاہیے،بلاکسی شرعی وجہ کے کسی کوکم اورکسی کوزیادہ دینادرست نہیں،اولاً آپ اپنی ضروریات کے لئے بقدرضرورت رکھ لیں تاکہ کسی کی محتاجی نہ ہو،اپنی اہلیہ کوآٹھویں حصے کے بقدردے دیں ، اورباقی مال کوبیٹوں اوربیٹیوں کے درمیان برابرتقسیم کردیں،بلاوجہ کمی بیشی نہ کریں،البتہ اگراولادمیں سے بعض کوان کی دینداری یااطاعت وفرمانبرداری کی وجہ سے اوروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دیناچاہیں تواس کی اجازت ہے۔(مشکوة المصابیح،ص:265،ط:قدیمی کراچی-فتاویٰ شامی،/696،ط:ایچ ایم سعید)
نافرمان اولادکوعاق کرنے کا حکم
سوال:میرے بچے میرے ساتھ بہت زیادتی کرتے ہیں،یہاں تک کہ بیمارہوتاہوں تواسپتال تک لیکرنہیں جاتے،اس بناءپرمیں اپنی تمام اولادکواپنی جائیدادسے عاق کرناچاہتاہوں ،کیامیراعاق کرنااس صورت میں درست ہے؟
جواب:بڑھاپے کی عمرکوپہنچ کروالدین اپنی اولادکی جانب سے خدمت اورراحت رسانی کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں،بوڑھے والدین کی خدمت انسان کے لئے سعادت اورجنت میں داخلے کاسبب ہے،قرآنِ کریم نے والدین کے ساتھ حسنِ معاشرت کاحکم دیاہے، چنانچہ سورہ¿ نساءمیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اوراللہ ہی کی عبادت کرو،اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناو¿،اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو“۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے بددعاکی ہے جواپنے والدین کویادونوں میں سے کسی ایک کوبڑھاپے کی حالت میں پائے اوران کی خدمت کے ذریعہ جنت حاصل نہ کرسکے۔چنانچہ حدیث نبوی میں ہے:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ آدمی ذلیل ہو،وہ خوارہو،وہ رسوا ہو۔عرض کیاگیایارسول اللہ !کون؟ (یعنی کس کے بارے میں یہ ارشادفرمایاگیاہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ بدنصیب جوماں باپ کویادونوں میں سے کسی ایک ہی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کرکے اوران کادِل خوش کرکے)جنت حاصل نہ کرسکے(صحیح مسلم)۔ اس حدیث سے والدین کے مقام کااندازہ لگایا جاسکتاہے، آپ کی اولادکارویہ انتہائی افسوسناک ہے،انہیں اپنے اس طرزِ عمل کوترک کرکے دل وجان سے آپ کی خدمت کرنی چاہیے ۔اولادکی یہ نالائقی یقیناجرم ہے،اورخدمت نہ کرنے کی وجہ سے وہ خودہی شرعی طور پرعاق (یعنی نافرمان)ہوچکے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے انہیں وراثت سے محروم کرنادرست نہیں،اگرآپ نے عاق بھی کردیاتب بھی انہیں ان کاشرعی حصہ ملے گا۔البتہ اگراس بات کااندیشہ ہوکہ میری اولادمیرے بعد اس مالِ وراثت کونافرمانی اور گناہوں میں صَرف کرے گی تواس صورت میں اپنامال اپنی زندگی میں خرچ کردیں،دیگرورثاءکودے دیں،یاغرباءومساکین میں تقسیم کردیں ، یا مساجد و مدارس اورخیرکے کاموں میں لگادیں ،اورکچھ اپنے گزربسرکے لئے رکھ دیں۔(مشکوة المصابیح، کتاب البیوع،باب الوصایا،الفصل الثالث، ص:266،ط: قدیمی کراچی- معارف الحدیث،کتاب المعاملات والمعا شرت، 6/283،ط:دارالاشاعت کراچی- فتاویٰ شامی 7/505 ،ط: دارالفکر بیروت فتاویٰ ہندیہ، کتاب الھبة،الباب السادس فی الھبة للصغیر، 4/391،ط:رشیدیہ کوئٹہ)
جھوٹی قسمیں اٹھانا گناہ کبیرہ ہے
سوال: ایک شخص اپنے گناہوں اورجرائم پرپردہ ڈالنے کے لئے باربار قسمیں کھاتاہے،اوراسے معلوم بھی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہاہے،لیکن اس کے باوجودقسمیں اٹھاکراس جھوٹ کوسچاثابت کرنے کی کوشش کرتاہے ،ایسے شخص کے بارے میں شریعت کاکیاحکم ہے جوجھوٹی قسمیں اٹھاتاہو،اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنے کی نارواجسارت کرتاہو؟
جواب:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:”اوراللہ کے نام کواپنی قسموں کانشانہ نہ بناو¿“(بقرة)۔مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت سے بکثرت قسم کھانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے،یعنی بلاضرورت کسی سچی بات پربھی قسم کھانا،حلف اٹھاناشرعاًپسندیدہ عمل نہیں ہے۔کسی شخص کاجھوٹی قسمیں کھانا،اپنے جرائم کوچھپانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کواستعمال کرنانہایت ہی خطرناک اورگناہ کبیرہ ہے، آخرت کی سزاکے علاوہ بسااوقات جھوٹی قسمیں اٹھانے کاوبال دنیامیں بھی آجاتاہے،اس لئے ایسے شخص کواس عمل سے بازآناچاہیے،احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی قسم اٹھانے والے شخص کے لئے شدیدوعیدیں بیان فرمائی ہیں،چنانچہ ایک حدیث میں ارشادہے:”جوشخص (کسی حاکم کی مجلس میں )محبوس ہوکر(یادیدہ¿ ودانستہ )جھوٹی قسم کھالے تووہ اپناٹھکانہ جہنم میں بنالے“۔ دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی قسم کھانے کوگناہ کبیرہ قراردیاہے، آپ علیہ الصلوة والسلام کا ارشادہے:”کسی کواللہ کاشریک ٹھہرانا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،ناحق کسی کومار ڈالنا، اور جھوٹی قسم کھانابڑے گناہ ہیں“۔ لہذاجھوٹی قسم اٹھانے والاشخص بہت بڑے گناہ کامرتکب ہے، ایسے آدمی کوجھوٹی قسمیں اٹھانے سے باز رہنا چاہیے، اپنے اس گناہ پر اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے توبہ کرکے آئندہ کے لئے اس عمل سے دوررہنے کا پختہ عزم کرنا چاہیے۔ (سنن ابی داو¿د، 2/108، ط:رحمانیہ لاہور- مظاہرحق، کتاب الایمان 1/130، ط: دارالا شاعت)
شرعی مسائل کے حل کے لیے رابطہ کریں
masail.juraat@gmail.com


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں