میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آقا علیہ السلام کی زندگی سے ایک سبق

آقا علیہ السلام کی زندگی سے ایک سبق

منتظم
جمعرات, ۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ندیم الرشید
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹائی پر سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے تھے۔ یہ دیکھ کر ہم نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ! اگر ہم آپ کے لیے نرم بستر مہیا کردیں تو کیا حرج ہے‘ آپ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا سروکار؟ دنیا سے میرا واسطہ تو اتنا ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار(مسافر) کسی درخت کے سائے میں(تھوڑی دیر کے لیے) رک جائے اور پھر اسے چھوڑ کر چلا جائے۔ (ترمذی‘ ابواب الزہر)
محترم قارئین!
اس مبارک حدیث میں آپ علیہ السلام نے دنیوی عیش و عشرت اور مزے کو عارضی اور فانی بتلا کر اس سے بے رغبتی اور لا تعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ کیونکہ انسان جب آرام طلب بن جاتا ہے اور اپنی من مانیوں پر اتر آتا ہے تو پھر دنیا اس پر سوار ہو جاتی ہے اور ایسی مسلط ہوتی ہے کہ اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ جب آدمی پوری طرح دنیا کے چنگل میں پھنس کر عیش و عشرت کا دلدادہ بن جاتا ہے تو پھر اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے پوری طرح فرض شناسی کا ثبوت دینے کی بجائے سستی کاہلی اور کام چوری پر اتر آتا ہے۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ کسی طرح اس کے حصے کا کام کوئی اور اپنے سر لے لے اور اس کی جان چھوٹ جائے۔ یہ رویے ایسے ہیں جو کسی بھی قوم کو ،معاشرے کو، فرد اور تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اس لیے مومن کی شان یہ ہے کہ وہ مجاہدانہ زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اپنی راحت کے لیے یا یوں کہہ لیجیے کہ عیش و عشرت کی زندگی کے لیے دنیاوی مزے اور عیاشیوں کے چکر میں نہیں پڑتا بلکہ جو کچھ میسر آتا ہے اسی پر قناعت کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور وہ اعمال کرتا ہے جس سے اس کی اخروی زندگی زیادہ سے زیادہ بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور دنیا اس کی نظروں میں حقیر سے حقیر ہوتی چلی جاتی ہے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ کہیں چلے جارہے تھے تو راستے میں بکری کا ایک مردار بچہ دکھائی دیا۔ آپ علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا تم میں سے کون ہے جو اس مردار بچے کو ایک درہم میں خریدے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ایک درہم تو دور کی بات ہم میں سے کوئی اس کو مفت بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا کی قیمت اس سے بھی کم تر ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا: اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی وقعت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافروں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیا جاتا۔
لہٰذا دنیاوی مزے پر مرنا نبی علیہ السلام کے امتی کے شایان شان نہیں ہے‘ پروٹوکولز اور تکلفات کی زندگی انسان کو خواہشات کی پیروی میں لگا دیتی ہے پھر انسان”عبد“ بننے کی بجائے Pleasure seeking animal(لذتوں کا متلاشی جانور) بن جاتا ہے اور وہ سر کشی پر اتر آتا ہے۔ جس کا نتیجہ جہنم ہے جبکہ آقا علیہ السلام کی زندگی ہر طرح کے تکلفات سے پاک تھی۔ دنیا کی بلند ترین شخصیت ہونے کے باوجود آپ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ چنانچہ آپ بیمار کی عیادت بھی کرتے‘ جنازے میں بھی شرکت فرماتے‘ گدھے پر سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول کرتے(شمائل ترمذی)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی نہیں تھا۔ اس کے باوجود آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ طریقہ آپ کو ناپسند ہے(شمائل ترمذی)
قارئین مکرم!
آج مغربی طرزِ زندگی اختیار کرنے کے باعث ہم لوگ بھی اپنی شخصیت کے گرد تکلفات کا مصنوعی خول چڑھا لیتے ہیں۔بات چیت کے انداز میں، پہننے اوڑھنے کے انداز میں‘ نشست و برخاست میں ہم اپنے لیے کچھ پروٹوکولز چاہتے ہیں جس سے ہمارے شاہانہ مزاج کا اظہار ہو۔ ہم اپنے اور اپنے ماتحتوں کے درمیان فاصلے رکھنا چاہتے ہیں ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر یہ فاصلے نہیں ہوں گے تو عام لوگوں کے درمیان ہماری شخصیت غیر مو¿ثر ہوکر رہ جائے گی۔ لیکن آقا علیہ السلام کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اسلامی علمیت‘ اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی سب سے اعلیٰ و بالا شخصیت بھی معاشرے میں ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہوئے ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عیش و عشرت، شاہانہ مزاجی، تکلفات اورفاصلہ رکھنے سے کوئی شخصیت موثر قرار نہیں پاتی بلکہ عام آدمی کی طرح رہنے سے ہی ، تکبر سے پاک زندگی گزارنے سے ہی کوئی شخصیت معاشرے میں ایک مستحکم اور بڑی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
وما علینا الاّالبلاع


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں