کفایت شعاری ۔۔۔شریعت اسلامی کی نظر میں
شیئر کریں
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان خرچ،اخراجات اورخریداری کے معاملے میں اعتدال وتوازن اورمیانہ روی اختیار کرے اورغیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ایک عام انسان کی ضروریات بہت زیادہ نہیں۔کھانے کیلئے دووقت کی روٹی،پہننے کیلئے کپڑے اور رہائش کیلئے مکان۔اب انسان نے اپنی ان مختصر اورسادہ ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھیلا لیا ہے۔انواع واقسام کے کھانے،طرح طرح کے سالن،پلاؤ،قورمہ،بریانی،کوفتے،کباب،جیلی،جام،مکھن،پھرانڈا کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے انسان ان سب چیزوں کو بیک وقت استعمال نہیں کرتا۔اسی طرح مختلف ڈیزائنوں اورفیشنوں کے کپڑوں کے سینکڑوں اوربیسیوں جوڑے،صبح کا لباس الگ، شام کالباس الگ دفتر کا الگ،گھر کا لباس الگ، رات کو سونے کا لباس الگ طرح طرح کے جوتوں کے ڈھیروں جوڑے ، مکان وسیع وعریض، ضروریات اورآرام سے آگے بڑھ کر تعیشات کا استعمال،خود کا ردروازے اورمشینیں، وی سی آر، ڈی وی ڈی وغیرہ آمدورفت کیلئے موٹر سائیکل اورکئی کئی انواع واقسام کی کاریں۔۔۔ یہ طرز زندگی فضول خرچی کا غماز ہے اورکفایت شعاری کے طریقے کے بالکل برعکس ہے۔
انسان کی دولت خواہ کتنی ہو،اوراس کے وسائل خواہ کیسے ہی بے حدوبے حساب ہوں، بہرحال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہونے والے ہیں۔لہٰذا ایک انسان کیلئے دانش مندی کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ایک سوروپے کے خرچ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہو،وہاں ایک روپیہ بھی زائد خرچ نہ کیا جائے۔اگر ایک کم قیمت کی اچھی چیز مل رہی ہو تو محض فیشن یا نئے ڈیزائن کیلئے زیادہ قیمت کی چیز نہ خریدی جائے۔ہم مسلمان ہیں اوراسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے کھانے پینے کے معاملے میں قرآن مجید کی ہدایت ہے:
‘‘کھاؤ پیو اوراسراف (فضول خرچی)نہ کرو،اسی طرح جو لوگ عام زندگی میں مسرفانہ رویہ اپناتے ہیں،انہیں
شیطان کے بھائی قراردیا گیا’’
اسی طرح فرمایا گیا کہ
‘‘بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں’’
گویا فضول خرچی ایک شیطانی طرز عمل ہے جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔کفایت شعاری اور وسائل کے بہترین استعمال کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اور نبی کریم ﷺ کی احادیث ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
‘‘ اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے
شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل، آیت 27)
آیت سے پتہ چلتا ہے کہ فضول خرچی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ نہ تو کنجوسی کرو اور نہ ہی بے پناہ خرچہ، بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔حضورﷺ کا فرمان ذی شان ہے
‘‘جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مال دار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک
اسے محتاج کردیتا ہے’’۔ (مسند البزار،161/3، حدیث946)
جناب نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے قیامت کے دن ہر فقیر اور مالدار اس کی تمنا کرے گا کہ(کاش) دنیا میں اسے صرف ضرورت کے مطابق رزق دیا جاتا (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد، باب القناعۃ، 442/4،حدیث: 235)کفایت شعاری کے حوالے سے شیخ سعدیؒ کا مشہور قول ہے کہ ‘‘جس نے کفایت شعاری اپنائی، اُس نے حکمت ودانائی سے کام لیا’’ جب کہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے’’ درحقیقت فضول خرچی،سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے جدید دور میں اشتہاربازی نے ہماری زندگیوں سے سادگی کو ختم کردیا ہے،نئے فیشن،نئے ڈیزائن،نئی نئی چیزوں کی کثرت نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ہم نئی چیزوں اور فیشنوں کے شوق میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں،پھر قرض لیتے ہیں اورکچھ نہیں تو قرض پر چیزیں لے کر قسطوں میں ادائیگیاں کرتے ہیں۔
ہمارے بزرگوں اور بڑوں،خصوصاًآنحضورااورآپؐ کے ساتھیوں نے ہمارے لیے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا،وہ انتہادرجے کی سادگی پر مبنی تھا۔ہم نے سادگی کے اس راستے کو چھوڑ کر خود کو مشکل میں مبتلا کرلیا ہے کفایت شعاری ہماری اپنی ضرورت بھی ہے کم روپیہ خرچ کریں گے،غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے توہم کچھ پس انداز اوربچت کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔یہ بچایا ہوا روپیہ کل کسی مشکل یا مصیبت کے وقت ہمارے ہی کام آئے گا یوں انفرادی سطح پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ مہیا کرتی ہے اجتماعی حیثیت سے دیکھیں تو یہ بچایا ہوا روپیہ ملک کی ترقیاتی سکیموں میں استعمال ہوگا اوراس کا فائدہ پورے ملک اورپوری قوم کو پہنچے گا کفایت شعاری سے مہنگائی کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔معاشیات کا اصول ہے کہ خریداری جتنی ہوگی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اگرہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں گے تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہوگا،قیمتیں اعتدال پر رہیں گی اوریوں مہنگائی سے خاصی حد تک چھٹکارا ملے گا۔مثل مشہور ہے کہ ‘‘چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں’’یعنی عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔نمود ونمائش سے پرہیز کریں شاندار عمارات، آرائشی ساز وسامان،اشیائے تعیش اورفیشن پرستی کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکھیں۔ظاہر پرستی کا رویہ چھوڑ کر سادہ روش اپنائیں۔اس طرح نہ صرف ہم مالی طور پر آسودہ حال ہوں گا بلکہ سادگی اورکفایت شعاری ہمیں خوش حال بنائے گی،اس کا اثر ہماری ملکی معیشت پر مرتب ہوگا۔یوں ہماری دنیاوی ز ندگی کے ساتھ عاقبت بھی سنور جائے گی اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔فضول خرچی کرنیوالوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنیوالوں کو پسند نہیں فرماتا-فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنیوالوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ’’۔بیشک فضول خرچی کرنیوالے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اخراجات کا جائزہ لیں تو جو فضول یا زائد چیز نظر آئے تو اسے اپنے اخراجات سے نکال دیں اور جو صحیح معلوم ہو اسے باقی رکھیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں فضول خرچی اور اسراف کرنے سے بچائے اور کفایت شعاری کے ساتھ وقت گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین