میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی( قسط نمبر31 )

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی( قسط نمبر31 )

منتظم
منگل, ۱ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

آف شورکمپنی کی ملکیت کے انکشاف پرآئس لینڈ کے20 ہزار افرادنے سڑکوں پر آکروزیر اعظم کو استعفے پر مجبور کردیا
ہمارے انکشافات کے بعد ارجنٹائن کے صدر بھی مشکلات کا شکار ہوگئے،ان کے وزیر خزانہ سمیت کئی ساتھی اور بھائی و کزن بھی آف شور کمپنیوں کے مالک تھے یا ان کے شیئرز ہولڈر تھے
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
ابھی اخبارات نے پانامامیں موجود شیل کمپنیوں کے بارے میں ہماری تفتیشی رپورٹ کی اشاعت شروع نہیں کی تھی لیکن اس کی اشاعت سے 3ہفتے قبل ہی آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن کی کرپشن کا اسکینڈل سامنے آگیاتھا۔
آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے اسکینڈل کاانکشاف ہمارے آئس لینڈ کے ساتھی سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی جوہانز کرسٹ جانسن نے آئس لینڈ کے وزیر اعظم سے ایک انٹرویو کے بعد کیاتھا۔ اس کاانکشاف آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن سے شیل کمپنیوں، آئس لینڈ کے بینکنگ کے بحران اورآف شور کمپنیوں سے متعلق اخلاقیات او ر اصولوں کے حوالے سے سوالوں کے دوران ہوا ، آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن نے اس حوالے سے کیے گئے سوالات پر ناخوشگواری کا اظہار کیا۔
سوئس صحافی جوہانز کرسٹ جانسن نے آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن سے سوال کیاتھا کہ کیا آپ کی کوئی آف شور کمپنی ہے یا آپ کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو غالباًیہ اندازہ نہیںتھا کہ وہ کس کواس بارے میں کیاجواب دے رہے ہیں۔اچانک انھیں کچھ خیال آیا اور انھوں نے بات اس طرح تبدیل کی کہ جی ہاں میں نے ایسی کمپنیوں کے ساتھ کام کیاہے جن کے آف شور کمپنیوں کے ساتھ تعلقات تھے،لیکن میں نے اپنے تمام معاملات ٹیکس حکام کو بتادیے تھے، پھر انھوں نے اس طرح کے غیر متوقع سوالات پر یہ کہہ کر حیرت کا اظہار کیا کہ آپ نے کیسا حیرت انگیز سوال کیاہے؟میں یہ وثوق سے کہتاہوں کہ میں نے اپنے کوئی اثاثے کبھی نہیں چھپائے۔اس کے بعد ان سے دوسرا سوال تھا کہ آپ کاکہناہے کہ آپ کاکسی آف شور کمپنی سے کوئی تعلق نہیں رہا، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کوبتایا کہ میں نے ہمیشہ اپنے اثاثے ظاہر کیے ہیں ، اس پر جوہانز نے چبھتاہوا سوال کیا کہ آپ مجھے ونٹرس نامی کمپنی کے بارے میں کیا بتائیں گے؟ سوال سن کر آئس لینڈ کے وزیراعظم لمحہ بھر کیلیے بالکل خاموش ہوگئے ،پھر انھوں نے کہا کہ ہاں مجھے یاد آتاہے کہ یہ ایک کمپنی ہے جو ایسی ایک کمپنی کے ساتھ منسلک تھی جس کے بورڈ میں میں شامل تھا،یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہوئے او ر پھر بولے کہ اس کمپنی کاایک اکاﺅنٹ تھا جو کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جب سے یہ کمپنی قائم کی گئی ہے ٹیکس اکاﺅنٹ میں رجسٹر ڈ ہے۔اس موقع پر جوہانز کرسٹ جانسن نے آگے بڑھ کر ایک سخت سوال جڑدیا کہ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ونٹرس سے آپ کاتعلق تھا؟ اس سوال پر آئس لینڈ کے وزیر اعظم کا صبر کاپیمانہ لبریز ہونے لگا اورتحمل کادامن ان کے ہاتھ سے چھوٹتاہوامحسوس ہوا۔ تاہم انھوں نے خود پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا کہ میں آپ کوپہلے بتاچکاہوں کہ ابتدا ہی سے میرے ٹیکس گوشوارے میں اس کا اظہار کیا گیاہے۔اسے ڈکلیئر کیاگیاہے۔اگلا سوال تھا کہ آپ نے پارلیمنٹ رجسٹر میں یہ کمپنی ظاہر کیوں نہیں کی؟ ان کاجواب تھا کیونکہ یہ ایک اسپیشل کیس تھا۔ اس پر جوہانز نے ایک اور سوال جڑدیا کہ کیا یہ کمپنی آپ کی ملکیت تھی،انھوں نے جواب دیا کہ میری بیوی نے اس کے کچھ حصے یعنی شیئرز اپنی فیملی کو فروخت کردیے تھے۔اس کے بعد اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک بینک کے سپردکردی گئی تھی اوراس نے اس کے لیے کچھ انتظامات کیے تھے جس کے نتیجے میں یہ کمپنی وجود میں آئی۔ اب اگلا سوال تھا کہ اس کمپنی کے اثاثے کتنے تھے ، آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو غالباً اس طرح کے سوالات کی توقع نہیں تھی، وہ غصے میں آگئے اور اٹھ کھڑے ہوئے پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
یہ انٹرویو شائع ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم کی اہلیہ نے فیس بک پر لکھا کہ ونٹرس صرف ان کی ملکیت ہے اور کوئی اس میں شراکت دار نہیںہے۔ اسی دوران ان کے شوہر یعنی آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے ایک ریڈیو پربھی انٹرویو دیا لیکن ان کے یہ تمام حربے ناکام ثابت ہوئے ۔3 اپریل کو جوہانز نے ٹیلی ویژن پر یہ انٹرویو نشرکردیا ،ملک کی کم وبیش نصف آبادی نے یہ انٹرویو دیکھا اور چند گھنٹے کے اندر ہی ہزاروں افرادنے اسے دیکھ لیا۔ ہمارے تبصرہ نگاروںنے اسے آئس لینڈ کی پارلیمنٹ کی تاریخ میں اعتماد کی سنگین پامالی قرار دیا۔شام تک یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندر گن لاﺅگ سن استعفیٰ دے رہے ہیں اور اس کے دوسرے دن ہی ان کے خلاف مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔ہزاروں افراد آئس لینڈ کی پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوگئے۔ انھوںنے مظاہرین کوروکنے کے لیے لگائی گئی رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور ہیلمٹ، ساس پین کی لکڑی اور دوسری چیزوں سے پارلیمنٹ ہاﺅس کے دروازے بجانا شروع کردیے ۔انھوںنے پارلیمنٹ ہاﺅس پر کیلے اور جو کچھ ان کے ہاتھ لگا پھینکنا شروع کردیے۔20 ہزار سے زیادہ مظاہرین نے اپنے وزیر اعظم کے خلاف سڑکوں پر مارچ شروع کردیا ،3لاکھ 30ہزار آبادی کے اس ملک میں 20ہزار افراد کاسڑکوں پر آجانا معمولی بات نہیں تھی۔پہلے تو وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن نے اعلان کیا کہ وہ گھٹنے نہیں ٹیکیں گے لیکن دوسرے ہی دن انھوںاعلان کیا کہ وہ استعفیٰ دیدیں گے ۔لیکن مظاہرین ان سے فوری استعفیٰ کامطالبہ کررہے تھے ،بالآخر انھوں نے اعلان کیا کہ وہ عارضی طورپر اقتدار دوسرے کے حوالے کررہے ہیں ۔اس طرح وزیراعظم سگمندر گن لاﺅگ سن وہ پہلے وزیر اعظم تھے جو ان انکشافات پر استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔
پاناماپیپرز کے حوالے سے ہمارے انکشافات نے ارجنٹائن کے صدر ماریسیو ماکری کو جو نومبر 2015 ہی میں منتخب ہوکر برسراقتدار آئے ،مشکلات کاشکار کردیا۔ہمارے پاس موجود ڈاکومنٹس کے مطابق وہ فلیگ ٹریڈنگ لمیٹڈ نامی ایک شیل کمپنی کے ڈائریکٹر تھے۔ڈاکومنٹس سے یہ بھی ظاہرہوتاتھا کہ انھوں نے اس انکشاف سے چند ہفتے قبل ہی اپنے والد کی زیر ملکیت ایک آف شور ہائڈرو الیکٹرک کمپنی کے شیئر خریدے تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ ماکری کے کئی ساتھی بھی آف شور کمپنیوں کے مالک تھے یا ان کے شیئرز ہولڈر تھے۔ان کمپنیوں میں نیس ٹر گرنڈیٹی شامل تھی، شیل کمپنی کے مالکان یا اس کے شیئرز ہولڈرز میں ارجنٹائن کے صدر کے جو قریبی ساتھی شامل تھے ،ان میں ماکری کے سابق وزیر خزانہ، ماکری کی حمایت سے بوکا جونیئر فٹبال کلب کے صدر بننے والے ڈینیل انگلیکی، ماکری کے حقوق انسانی کمشنر کلاﺅڈیو ایورج ،فیڈرل انٹیلی جنس ایجنسی گسٹاوو ایری باس ،ماکری کے کئی بھائی ،ان کے کزن، جورگ، ویسنٹ لوپیز کی میونسپلٹی کے میئر بھی شامل تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں