یوم عاشور کے تقاضے
شیئر کریں
آج پوری دنیا کے مسلمان اپنے پیارے نبی اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے انتہائی چہیتے نواسے حضرت امام حسینؓ کایوم شہادت یعنی یوم عاشورہ منارہے ہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کے 12مہینوں میں جن 4 مہینوں کو باعث احترام قرار دیا ہے ان میں محرم الحرام کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی اسلامی سال کاآغاز ہی محرم الحرام سے ہوتاہے۔تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی اْبھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے جن واقعات کو محفوظ کیا ہے، ان کے مطابق اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری۔حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے رہائی حاصل ہوئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کردیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اْٹھا لیا گیا۔ان تمام واقعات کا تعلق دین اسلام کی آمد سے قبل سے ہے اور تاریخی کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے عاشورہ یا عاشورہ محرم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کو پیش آئے تھے۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض اہم واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو پیش آئے ، حضرت عائشہؓ عنہا فرماتی ہیں کہ اسی روز (یعنی دس محرم الحرام کو) اہلِ مکہ، خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔(بخاری ومسلم) قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔ محرم الحرام کے پورے مہینے کی جو تقدیس آئی ہے وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے اور اسے مقدس جانتے ہوئے گزشتہ آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں بطور شکرانہ اس دن روزہ رکھتی رہی ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعت اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، لیکن عاشورہ کے دن کی تقدیس برقرار رہی۔ چناںچہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے، اسے ترک کردے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد نبیؐ کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ مدینہ منورہ کے یہودی عاشورہ محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، جب ان یہودیوں سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات بتائی کہ ہمیں فرعون سے نجات اسی دن حاصل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔دین اسلام چونکہ ایک مستقل مذہب ہے اور اس مذہب نے اپنے سے پہلے کے مذاہب کی چند باتوں کو بھی اپنے اندر سموتے ہوئے ان مذاہب کو منسوخ کردیا ہے۔ ان کے ماننے والوں کی مخالفت کا حکم دیا ہے، تاکہ اْن مذاہب سے یہ مذہب ممیز و ممتاز ہوجائے،لہٰذا حضوراکرم ؐ نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ آئندہ سال دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ میں نو محرم الحرام کا روزہ بھی اگر اس دنیا میں رہا تو ضرور رکھوں گا۔(صحیح مسلم جلد اوّل صفحہ 359)نبی اکرم ؐنے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘(مسلم جلد۱ صفحہ۷۶۳)
فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ان سے مراد اللہتعالیٰ کی چھوٹی چھوٹی نافرمانیاںہیں، بڑے بڑے گناہ تو خود قرآن و حدیث کی تصریح کے مطابق بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ جہاں تک اللہ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا تعلق ہے ،وہ صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے، بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو اللہ تعالیٰ پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ صفحہ ۰۷۱) مندرجہ بالا دو باتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کا ذکر اور عمل قرون اْولیٰ میں بھی ثابت ہے۔
اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا کے دین کومسخ کرنے کی کوششوں کوناکام بنانے اور حق اورباطل کے درمیان واضح لکیر کھینچنے یعنی دین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کی طرف آئے تھے۔اور ببانگِ دہل فرمایا تھا کہ ’’لوگو! رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے، اللہ کے عہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاًو عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے ، آگاہ ہوجائو، ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، ملک میں فساد پھیلایا اور حدوداللہ کو معطل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کردیا ہے، اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔‘‘ (ابنِ اثیر/الکامل فی التاریخ 4/40)
حضرت امام حسین ؓ نے تمامتر بے بضاعتی اور وسائل سے محرومی کے باوجود باطل کے سامنے حق پر ثابت قدم رہ کر اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے امت مسلمہ کو یہ سبق دیا ہے کہ باطل کی نفری اور طاقت سے مرعوب ہوکر حق کو چھوڑنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے بلکہ ایمان کامل کاتقاضہ یہ ہے کہ ہر حال میںباطل کے مقابلے میں حق کاساتھ دیاجائے۔اگرچہ اس کامطلب یہ نہیں کہ ہرایک حق کے نام پر ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگے،بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آج اپنے محبوب امام حضرت امام حسینؓ کایوم شہادت مناتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم ہر حال میںباطل کے مقابلے میں حق کاساتھ دیں گے اور وقتی دنیاوی فائدے کے لیے باطل کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کریں گے۔
آج یوم عاشور ہمارے علمائے کرائم کے لیے بھی ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علمائے کرام حق اور باطل میں تمیز کرنے اور باطل کے مقابلے میں حق کے لیے اور ظالم کے مقابلے مظلوم کی حمایت میں کھڑے ہونے کافریضہ ادا کرنے کی کوشش کریں اوراس قوم کو مسلک اورفقہ کی بنیاد پر ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے کے بجائے پوری امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کریں ،تاکہ اس ملک کے 20کروڑ عوام امت مسلمہ کی مضبوط قوت بن کر اسلامی دنیا کے محافظ کاکردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔
امید کی جاتی ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے،اور عاشورہ محرم کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اخو ت ومحبت میں اضافہ کرنے پر توجہ دیںگے تاکہ پاکستان کے عوام یکسو ہوکر اس ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے کام کرسکیں اور دشمن کوہمارے درمیان پھوٹ ڈال کر اپنے گھنائونے منصوبوں کو کامیاب بنانے کاموقع نہ مل سکے۔