میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کس نے کب بھتا خوری شروع کی ۔ ۔ ماضی پر ایک نظر

کس نے کب بھتا خوری شروع کی ۔ ۔ ماضی پر ایک نظر

منتظم
اتوار, ۱۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

شہر کراچی میں بھتا وصولی کا آغاز پولیس نے کیا،متحدہ پہلے مہاجر دکانداروں سے چندہ لیتی تھی جو کچھ عرصے میں بدل کر بھتے کی شکل اختیار کر گیااور بلاتفریقِ رنگ و نسل سب سے بٹورا جانے لگا
ایم کیو ایم کے بعد حقیقی نے بھتا خوری کا بازار گرم کیا ، کچھ عرصے بعد سنی تحریک میدان میں اتری، جلد ہی اے این پی اور لیاری گینگ وار نے بھی اہل شہر کو اپنے شکنجے میں جکڑلیا
کراچی آپریشن کے باوجود کراچی شہر کے مختلف بازاروں اور مارکیٹوں میں بھتہ خوری کا سلسلہ تاحال جاری ہے، اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھتہ خور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا نام استعمال کرکے بھتہ ووصول کررہے ہیں تاجر اور دکان دار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اب یہ بھتہ پہلے کی نسبت کم ضرور ہے تاہم یہ معاملہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکا، چند روز قبل گارڈن کے تاجروں نے ملنے والی بھتے کی پرچیوں کے بعد روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا تھا ان تاجروں نے پولیس سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا بعد ازاں رینجرز افسران سے مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا تھا اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اولڈ سٹی ایریا کے علاقوں کھارادر، میٹھادر، جوڑیا بازار، لی مارکیٹ شامل ہیں، دو روز قبل گذری پولیس نے اپنے ہی کانسٹیبل کے خلاف بھتہ خوری کا مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا تھا،
اہل کراچی بھتا خوری سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آخر کار 30سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے انہیں بھتا دیتے ہوئے۔ بھتا خوری کی وبا پہلے بہت محدود پیمانے پر ہوتی تھی یعنی پہلے صرف کراچی پولیس پتھارے داروں سے بھتا وصول کیا کرتی تھی اور یہ بھتا بھی بہت معمولی ہوتا تھا یعنی دس روپے یا پندرہ روپے فی پتھارہ یا ٹھیلہ وصول کیا جاتا تھا۔ پارٹی یا تنظیم کی سطح پر سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ نے بھتا وصولی شروع کی۔ ابتدا میں مہاجر کاز کے نام پر مہاجر دکان داروں اور مہاجروں کے گھروں سے چندے کے نام پر رقم وصول کی جاتی تھی اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے بھتے کو ایک صنعت کا درجہ د ے دیا اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس کو فروغ دیا۔ پولیس والے صرف پتھارے داروں اور فٹ پاٹھ پر ٹھیلہ یا اسٹال لگانے والوں سے بھتے لیتے تھے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے پوری پوی مارکیٹوں سے بھتا وصول کرنا شروع کیا۔ جو دکان دار بھتا دینے سے انکار کرتا اس کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا۔ مرتا کیا نہ کرتا؟ دکانداروں نے اس صورتحال سے سمجھوتا کرلیا۔رفتہ رفتہ بھتے کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ نے شہر میں قبضہ گیری کی ابتدا بھی کی۔ آج سے بیس سال پہلے تک شہر کی ہر یوسی میں دو تین پبلک پارک ہوا کرتے تھے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے یونٹ اور سیکٹر آفسز کے لیے ان پبلک پارکس پر قبضے شروع کیے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت شہر میں پبلک پارکس برائے نام ہی رہ گئے ہیں۔جو چند ایک بڑے بڑے فیملی پارکس شہر میں موجود ہیں ان کو الخدمت گروپ کے ناظم شہر نعمت اللہ خان نے اپنے دور میں دوبارہ آباد کیا تھااور ان کی تزئین و آرائش کی وگرنہ ان پارکوں میں دھول اڑا کرتی تھی تاہم نعمت دور کے خاتمے پر متحدہ میئرکے دور میں بھی پارکوں پر قبضے جاری رہے۔1986سے لیکر 1992تک متحدہ قومی موومنٹ بلا شرکت غیرے شہر سے بھتا وصول کرتی رہی اور اس کا کوئی مقابل نہ تھا لیکن 1992 میں ایم کیو ایم حقیقی کی تشکیل کے بعد ان لوگوں نے بھی اپنے زیر اثر علاقوں میں بھتا وصولی شروع کردی۔
اس دوران یہ ہوا کہ پی پی پی کی حکومت کی برطرفی کے بعد میاں نواز شریف برسرِاقتدار آئے اور انہوں نے پی پی پی کی مخالفت کی بنا پر ایک بار پھر ایم کیو ایم سے اتحاد کیا حالانکہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میاں صاحب کی پہلی حکومت میں ہی شروع کیا گیا تھا،متحدہ کی حکومت میں شمولیت کے بعد حقیقی کے لیے مشکل دور کا آغاز ہوا۔حقیقی کے بیشتر کارکنان روپوش ہوگئے، کئی ایک نے دوبارہ متحدہ میں شمولیت اختیار کی اور اسی دوران حقیقی کے بیشتر کارکنان نے ایک نسبتا نئی مذہبی سیاسی جماعت سنی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔سنی تحریک اپنے آغاز سے ہی ایک انتہا پسند جماعت رہی ہے۔ دعوت ِ اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کا تعلق بھی مسلک اہل سنت ولجماعت سے ہے لیکن یہ دونوں بہت پرامن جماعتیں ہیں ان کے برعکس سنی تحریک نے تشدد اور قبضے کے ذریعے اپنی تحریک کا آغا ز کیا۔
متحدہ قومی موومنٹ اور حقیقی کے بعد یہ سنی تحریک وہ تیسرا گروپ ہے جس نے شہر میں بھتا خوری اور قبضے گیری کا سلسلہ شروع کیا، اب یہاں متحدہ کو ایک اور حریف کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ سنی تحریک کی بھتا خوری کے باعث اس کے حصے میں کمی آنے شروع ہوئی، ابتدا میں تو سنی تحریک کا نوٹس نہیں لیا گیا لیکن جب سنی تحریک نے اپنے ہاتھ پاو¿ں پھیلانے شروع کئے تو پھر متحدہ نے اس کے خلاف ایکشن لینا شروع کیا۔ کھارادر، چاکیواڑہ، نیوکراچی وغیرہ میں سنی تحریک نے اپنے قدم جما لیے تھے اس کے ساتھ ساتھ سنی تحریک نے بھتے کا دائرہ کار بولٹن مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، جامع کلاتھ وغیرہ تک پھیلادیا۔ اسی وجہ سے متحدہ اور سنی تحریک کے درمیان مسلح تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ ایک دو ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ جاری ہوجاتا ہے۔ابھی اہلیان کراچی کی مزید آزمائش باقی تھی،ان تینوں گروپس کے بعد اے این پی نے بھی متحدہ اور سنی تحریک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھتا خوری اور قبضہ گیری میں اپنا نام پیدا کیا۔ اے این پی سے کراچی کے لوگ اگرچہ پہلے بھی واقف تھے لیکن کراچی میں اس کا اثرو رسوخ اور قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر چہ پختونوں کی کراچی میں آمد عرصہ دراز سے جاری تھی اور ان کی آبادیاں بھی یہاں موجود تھیں لیکن سیاسی طور پر یہ لوگ زیادہ منظم نہ تھے۔ شاہی سید کی اے این پی میں شمولیت(1999) اور پھر چند سالوں بعد سندھ کا صدر بننے کے بعد کراچی میں پختون منظم ہونا شروع ہوئے۔ غالبا 2006میں ہم نے پہلی بار شاہی سید کے پوسٹرز اور بل بورڈز شہر میں لگے ہوئے دیکھے۔ اس کے بعد اے این پی نے بھی اپنے زیر اثر پختون علاقوں میں بھتا وصولی کا کام شروع کیا۔ ابتدا میں یہ کام صرف بنارس، اورنگی وغیرہ میں ہوتا تھا۔ اے این پی کی بد قسمتی کہہ لیجئے یا پھر شائد منصوبہ بندی کے تحت قبضہ گروپس، منشیات فروش اس میں شامل ہوتے گئے۔ شہر کی زمینیوں پر قبضے کی جنگ میں اے این پی بھی شامل ہوگئی۔ اے این پی اور متحدہ کے درمیان تعلقات کی خرابی یا تصادم کی وجہ یہ بنی کہ بلدیہ ٹاو¿ن ،اتحاد ٹاو¿ن جہاں پختونوں کی اکثریت ہے وہاں انہوں نے زمینوں پر قبضے کا سلسلہ شروع کیا ی۔ہ بات واضح رہے کہ اورنگی ٹاو¿ن کی پہاڑیوں اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں پہلے ہی پختون قبضہ گروپس نے اپنی بستیاں بنا لی تھیں ،قبضے کا سلسلہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ اورنگی ٹاﺅن تک پہنچ گیا۔ دوسری جانب اے این پی نے اپنی بھتا خوری کے دائرے کو وسیع کیا اور اورنگی وغیرہ کے ساتھ ساتھ گلستان جوہر اور گلشن اقبال کے کئی علاقوں میں بھی بھتا وصولی شروع کی۔ جب کہ ان علاقوں سے متحدہ قومی موومنٹ بھتا وصول کرتی تھی۔ زمینوں پر قبضے اور بھتا خوری کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے باعث متحدہ کو ایک اور حریف کا سامنا کرنا پڑا، البتہ یہ حریف اس کے دیگر حریفوں کے مقابلے میں طاقتور بھی تھا اور اسلحے میں خود کفیل بھی۔ اس لیے شہر میں مہاجر پٹھان فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں چھوٹے چھوٹے تصادم ہوتے رہے لیکن 12مئی 2007کو قائد آباد، ناظم آباد، پاپوش نگر اور کچھ دیگر علاقوں میں پختونوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔ جبکہ واٹر پمپ، ایف بی ایریا کے سگنل کے قریب واقع پختونوں کی دکانوں کو نذر آتش کردیا گیا۔
اس کے بعد نومبر2008میں ایک بار پھر مہاجر پٹھان فسادات ہوئے جس میں درجنوں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ ان میں بےگناہ مہاجر بھی تھے اور پختون بھی۔ ان فسادات کے دوران مہاجر آبادیوں میں واقع پختونوں کے ہوٹل بند کرائے گئے۔ ان کی دکانوں کو لوٹا گیا، کئی جگہوں پر پٹھانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ مفاہمتی سیاست کے تحت رحمان ملک اور صدر زرداری نے دونوں گروپوں میں صلح کرادی لیکن چھوٹے چھوٹے تصادم کا سلسلہ جاری رہا۔ 2009 میں ایک بار پھر شہر فسادات کی زد میں آیا۔ اس دفعہ بھی متحدہ اور اے این پی آمنے سامنے تھے۔ ایک بار پھر درجنوں بے گناہ لوگ مارے گئے اور متحدہ نے ایک بار پھر بےگناہ پختونوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔ ایک بار پھر پختونوں کے ہوٹلز اور دکانوں کو خالی کرانے کی کوششیں کی گئیں۔ اسی سال سانحہ عاشورہ ہوا جس کی آڑ میں لائٹ ہاو¿س کی مارکیٹ میں پختونوں کی دکانوں کو جلایا گیا۔ اگرچہ اس کو مشتعل عوام کے ردعمل کا نام دیا گیا لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مظاہرین نے صرف سیدھے ہاتھ پر واقع پختونوں کی مارکیٹوں کو نقصان پہنچایا جبکہ الٹے ہاتھ پر واقع دکانوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اس جلاو¿ گھیرا میں متحدہ قومی موومنٹ ملوث تھی لیکن مفاہمتی سیاست کے تحت اس جلا و¿گھیراو¿ میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔
لیاری گینگز کراچی میں کم و بیش پچیس تیس سالوں سے موجود ہیں۔ ابتدا میں یہ بابو ڈکیت اور حاجی لالوگروپ کے نام سے مشہور تھے اور ان کا دائرہ کار ڈکیتیاں یا پھر منشیات فروشی تک محدود تھا۔ جبکہ رحمان ڈکیت کا باپ دادل محمد عرف دادل بھی ان کے گروپ میں شامل تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں انہوں نے منشیات فروشی کا دھنداہ شروع کردیا ۔
بابو ڈکیت نے اختلافات کے باعث رحمان ڈکیت کے چچا یعنی دادل کے بھائی کو قتل کردیا، رحمان ڈکیت نے اپنا ایک نیا گروپ تشکیل دیا۔ اسی دوران بابو ڈکیت کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران رحمان ڈکیت نے بابو ڈکیت کو قتل کردیااور فرار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ رحمان ڈکیت نے پولیس کو مخبری کرنے کے شبہ میں اپنی ماں خدیجہ کو بھی قتل کیا تھا۔ 2001میں رحمان ڈکیت نے حاجی لالو کے ایک فرد مہران کولیاری کی ایک ٹرانسپورٹ یونین کی صدارت سے ہٹا دیا، ارشد پپو نے رحمان ڈکیت سے مہران کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جو کہ رحمان نے نہیں مانا، جس کے رد عمل میں ارشد پپو نے رحمان ڈکیت کے ایک فرد فیض محمد عرف فیضو کو قتل کردیا جبکہ حاجی لالو نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ رحمان ڈکیت کے لوگوں کو قتل کریں۔ جس کے بعد لیاری میں اس بدترین گینگ وار کا آغاز ہوا جوکہ ابھی تک جاری ہے،ارشد پپو اور رحمان ڈکیت گروپ۔ یہ دونوں گروپس پرانا گولیمار، لیاری، لی مارکیٹ اور گارڈن کے علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے کے علاقوں میں قبضے کی کوششیں کرتے تھے۔ پھر ان گروپوں نے محدود بھتا خوری کا آغاز کیا، ابتدا میں یہ گروپس اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود بلڈرز اور ٹرانسپورٹرز سے بھتا وصول کرتے تھے۔ جبکہ اس دوران ان کی آپس کی جنگ چلتی رہی جو کہ لیاری گینگ وار کے نام سے مشہور ہوئی۔
بعض اطلاعات کے مطابق متحدہ نے لیاری میں انٹری کے چکر میں ارشد پپوگروپ کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔ ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے البتہ یہ ضرور ہوا کہ متحدہ کی جانب سے ارشد پپو گروپ کی سرپرستی کے بعد پی پی پی نے اس کے مقابلے کے لیے رحمان ڈکیت کو باقاعدہ سپورٹ کرنا شروع کردیا اور اس کو ایک سماجی کارکن، ایک رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، ہوسکتا ہے کہ اس کے پس پردہ یہ مقاصد ہوں کہ لیاری کے بے روزگار اور معمولی جرائم پیشہ افراد کو جرم کا رستہ چھوڑ کر باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔اسی وجہ سے پیپلز امن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور ماضی کا رحمان ڈکیت اب سردار عبدالرحمن بلوچ عرف خان بھائی بن گیا۔ آغاز میں امن کمیٹی نے لیاری کے لوگوں کی خدمت کے ذریعے ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران امن کمیٹی نے لیاری میں کئی فلاحی سرگرمیاں کی، غریبوں اور بیواو¿ں کی مدد، ڈسپنسری وغیرہ قائم کرکے ایک سماجی خدمات کا آغاز کیا گیا۔ہوسکتا ہے کہ پی پی پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی اگر پی پی پی کی حکومت میں ہی رحمان ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت نہ ہوتی۔ رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد امن کمیٹی پی پی پی سے دور ہوتی گئی اگرچہ اس کے ہمدرد اور کارکنان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہی ہے لیکن وہ پی پی پی کی موجودہ قیادت سے متنفر ہیں۔دوسری جانب یہ ہوا کہ ارشد پپو گروپ تقریبا ختم ہوگیا اور ارشد پپو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم نے کچھی برادری کو سپورٹ کرکے لیاری میں انٹری کی کوششیں شروع کردی۔ جبکہ دوسری جانب امن کمیٹی نے باقاعدہ بھتا خوری اور کھالوں کے چھیننے کا سلسلہ شروع کردیا جس کے باعث گزشتہ سال نیا آباد میں عید الاضحی پر نیازی برادری اور امن کمیٹی کے درمیان مسلح تصادم ہوا جس میں امن کمیٹی کے کارندوں کی فائرنگ سے چار یا پانچ لوگ جاں بحق ہوگئے جبکہ متحدہ کی لیاری میں انٹری کی کوششوں کے باعث امن کمیٹی اور متحدہ کے درمیان تصادم کی بھی ابتدا ہوگئی۔ اس دوران متحدہ کے دباو¿ پر امن کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور اس وقت آن دی ریکارڈ پیپلز امن کمیٹی کا وجود نہیں ہے۔
امن کمیٹی کی تحلیل کے بعد لیاری گینگ وار کے کاندے اپنے رہنماو¿ں کی برائے نام نگرانی اور گرفت سے بھی آزاد ہوگئے اور انہو ں نے لوٹ مار کا سلسلہ گرم کردیا۔ اسی سلسلہ میں شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ کا سانحہ پیش آیا جبکہ گینگ وارنے لیاری ، پرانا گولیمار، گارڈن وغیرہ کے علاقوں سے نکل کر کھارادر، بولٹن، پیپر مارکیٹ، برنس روڈ تک اپنے پاو¿ں پھیلانے کی کوشش کی جس پر متحدہ اور لیاری گینگ وار کے درمیان تصادم تصادم نے باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرلی جبکہ اسی دوران چکرا گوٹھ کا واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے سادہ لباس میں ملبوس مروت کوچ میں سوارپولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا گیا،بعد از تحقیق اس واردات کا سہرا بھی متحدہ کے سر پر سجا تھا۔
شہر کراچی کے اس اندھیر نگری چوپٹ راج میں سیاسی بھتا خوروں کے علاوہ بھی کئی جرائم پیشہ گینگ متحرک ہوگئے ۔دریں اثنا پولیس نے بھتا خوری کے لیے خون آلود کفن بھیجنے والے گروہ کو گرفتار کیا۔تاجروں کو ہراساں اور دہشت زدہ کرنے والے تین رکنی بھتا خور گروہ کو ایس آئی یو اور سی پی ایل سی نے مشترکہ کاررروائی میں ماڑی پور سے گرفتار کرلیا۔ ایس ایس پی ایس آئی یو فاروق اعوان نے بتایا کہ بھتا خور سنگین وارداتوں میں مطلوب تھے۔گرفتار بھتا خوروں کے قبضے سے خون آلود کفن اسلحہ اور بھتے کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فونز برآمد کرلیے گئے۔کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد سے اہل کراچی کو نہ صرف ٹارگٹ کلنگ بلکہ بھتا خوری سے بھی کافی حد تک نجات مل چکا ہے جس کی مثال سال گزشتہ میں عید کے موقع پر آزادانہ خریداری اور صنعت و تجارت میں اضافہ جبکہ عید الاضحی پر عوام کی جانب سے بھرپور طریقے سے قربانی کے جانوروں کی خریداری اور قربانی کے کھال اپنی مرضی سے دینے کی آزادی شامل ہے ۔
کوئی نہیں جانتا کہ امن کا یہ وقفہ کتنے دن کاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے مکمل غیرجانبدارانہ آپریشن کرکے شہر کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔سب سے اہم بات یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو سیاسی جماعتوں کی مداخلت سے پاک رکھا جائے۔اس کے بعد ہی شہر میں مکمل امن وامان قائم ہوسکتا ہے بصورتِ دیگر وقتی امن کے بعد شہر میں فسادات برپا ہوتے رہیں گے، بے گناہ افراد مرتے رہیں گے، بھتا خوری اور پرچی مافیا اپنا کام کرتی رہے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں