میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر21)

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر21)

منتظم
جمعرات, ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کابیٹا 3آف شور کمپنیوں کامالک نکلا
چھان بین کے دوران ظاہر ہوا چند سال قبل ہی کوجو عنان کچھ متنازع کاروبار میں ملوث رہے تھے اور یہ اسکینڈل عراق کے تیل برائے خوراک پروگرام کے حوالے سے تھا
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
مئی کے آخرمیں ایک بڑی خبر نے ہمیں چونکا دیا۔خبر یہ تھی کہ زیورخ میں فیفا کانگریس کے 65 اجلاس سے صرف ایک دن قبل پولیس نے فیفا کے 6سینئر عہدیداروں کوگرفتار کرلیا ،گرفتار کیے جانے والوں میں فٹبال کی گورننگ باڈی کے دو نائب صدور، کے مین آئی لینڈز کے جیفری ویب اور یوروگوائے کے یوجینیو فیگاریڈو شامل تھے۔یہ گرفتاریاں امریکا میں کی جانے والی تفتیش کے نتیجے میں کی گئی تھیں،یہ تفتیش امریکی اٹارنی جنرل لوریٹا لنچ نے شروع کی تھی ان گرفتاریوں کے ذریعہ امریکا دراصل پوری دنیا کو کرپشن کے خلاف واضح پیغام دینا چاہتاتھا۔اس خبر سے پوری دنیا ششدر رہ گئی۔اس سے قبل کئی سال تک مشتبہ انداز میں ادائیگیوں، حکام کو رشوت کی ادائیگی اورٹورنامنٹ خریدنے کے الزامات شامل تھے۔بہرحال امریکا نے یہ ظاہر کردیاتھا کہ فیفا کوئی مقدس گائے نہیںہے۔امریکا نے یہ ثابت کردیا تھا کہ امریکا اب اس تنظیم کوجرائم پیشہ اور فراڈیوں کی تنظیم تھی اوراب ان کے خلاف متعلقہ قوانین کے مطابق کارروائی کی جاسکتی تھی۔
ان گرفتاریوں کے بعد فیفا کے صدر سیپ بلاٹر اور یونین آف یورپین فٹبال ایسوسی ایشن یو ای ایف اے کے صدور نے اس کے خلاف معمولی مزاحمت کی۔نیویارک کے تفتیش کاروں نے فیفا کے 14 عہدیداروں پر منی لانڈرنگ ،فراڈ اورکرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے۔الزامات کے تحت کہاگیاتھا کہ ان لوگوں نے 24سال کے دوران ایک ایسا نظام قائم کرلیاتھا جس کے ذریعہ وہ بین الاقوامی فٹبال میں کرپشن کے ذریعے امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔کہاجاتا ہے کہ ان لوگوں نے مجموعی طورپر 150 ملین ڈالر سے زیادہ رشوت وصول کی تھی۔
ہم نے ان گرفتاریوں کے بعد گرفتار شدگان کی ایک فہرست حاصل کی جوکہ امریکا میں آن لائن پر موجود تھی ان ناموں پر سرچ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ مختلف شیل کمپنیوں نے مبینہ طورپر گرفتار شدگان کو رشوت کی ادائیگی میں بنیادی کردار ادا کیاتھا۔ ہمیں 14 گرفتارشدگان میں سے3 عہدیداروں کے حوالے سے شواہد ملے ان میں سے ایک یوروگوائے سے تعلق رکھنے والے فیفا کے سابق نائب صدر یوجینیو فیگوریڈو کا کئی کمپنیوں سے تعلق سامنے آگیا۔دوسرانام ارجنٹائن کے اسپورٹس براڈ کاسٹنگ کے حقوق سے متعلق ایجنٹ ہیوگو جنکز ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے رشوت ادا کی۔ان کی کمپنی کراس ٹریڈنگ ایس اے مبینہ طورپر لاکھوں ڈالر کی مشتبہ ادائیگیوںکا انتظام کرتی تھی۔
3 جولائی 2015 کو ہم امریکا میں آئی سی آئی جے کے دیگر ساتھیوں کو اپنے پاس موجود ڈاکومنٹس کی تفصیلات سے آگاہ کرنے اور انھیں اس پر مطمئن کرنے کے بعد جرمنی واپس آگئے ، یہاں واپس آکر دیکھا کہ ہماری ای میل کے انباکس بھر چکے ہیں اور ان میں سے 75 فیصد پیغامات تھے یعنی نئی انٹریز اس میں آئی سی آئی جی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹیفکیشن بھی تھے ،اب نئے ڈاکومنٹس میں انکشاف ہوا کہ یوروگوائے کا صدارتی امیدوار اسلحہ کا اسمگلر تھا اور اس کا ایران کی جانب سے نکاراگوا میں گوریلوں کی غیر قانونی فنڈنگ سے بھی رابطہ تھا۔ اس میں ہمیں پیرو کے انٹیلی جنس چیف کانام نظر آیا، ایک ارب پتی روسی شہری اور قتل کی سازش میں ملوث تصور کی جانے والی ایک کمپنی کانام بھی مل گیا۔
ہم نئے سامنے آنے والے بعض نام دیکھ کر حیران ہورہے تھے مثال کے طورپر ہمارے سامنے کوجو عنان کا نام موجودتھا ،کوجو عنان اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کا بیٹاتھا، ڈاکومنٹس سے ظاہرہوتاتھا کہ وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں واقع دو شیل کمپنیوں اور سموآ نامی جزیرے میں واقع ایک تیسری کمپنی کامالک تھا۔اس معاملے کی تفصیلات دیکھتے ہوئے ہمیں 2013 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا کوفی عنان کا مضمون مل گیا، مضمون کا عنوان تھا، افریقہ کی دولت کو لٹنے سے بچایاجائے۔کوفی عنان کا یہ مضمون افریقہ کی دولت لوٹنے میں مصروف لوگوں اوربے نامی آف شور کمپنیاں قائم کرنے والوں کیلیے ایک بڑا دھچکا تھا۔کوفی عنان نے اپنے مضمون میں اس حوالے سے نائیجیریا کی مثال دی تھی۔المیہ یہ تھا کہ 2015 تک کوفی عنان کے بیٹے کوجو عنان کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کمپنی کا شراکت دار نائیجیریا کا ایک معروف سینیٹر تھا،تاہم ڈیٹا سے یہ ظاہر نہیں ہورہاتھا کہ یہ کمپنی کس مقصدسے قائم کی گئی تھی۔جب آئی سی آئی جے نے کوجو عنان کے ایک مشیر سے رابطہ کیاتو اس نے کہا کہ کمپنی قانون کے مطابق کام کررہی تھی اور مروجہ قوانین کے تحت تمام ٹیکس اداکیے جاتے رہے ہیں۔اس کمپنی کے قیام کا بنیادی مقصد فیملی اور تجارتی معاملات کی انجام دہی تھی۔
ڈاکومنٹس کی چھان بین کے دوران یہ ظاہر ہوا کہ چند سال قبل ہی کوجو عنان کچھ متنازع کاروبار میں ملوث رہے تھے اور یہ اسکینڈل عراق کے تیل برائے خوراک پروگرام کے حوالے سے تھا۔عنان ایک کمپنی کیلیے کام کررہے تھے جسے اقوام متحدہ کے امدادی سامان کی عراق کو ترسیل کی نگرانی کیلیے کئی لاکھ ڈالر کاٹھیکا ملا تھا۔اس زمانے میں کوفی عنان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے۔1999 میں ایک برطانوی اخبار نے اس حوالے سے سنگین سوالات اٹھائے تھے۔اس وقت کوجو عنا ن کو معاوضے کی ادائیگی کے طریقہ کار پر بھی بحث ہوئی تھی،بعد میں اس مسئلے کی تفتیش کیلئے فیڈرل ریزرو کے اس وقت کے چیئرمین پال واکر کی قیادت میں ایک کمیشن بھی قائم کیاگیاتھالیکن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوفی عنان کو اس معاملے سے بر ی الذمہ قرار دیاتھا اور اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہوتا کہ کوفی عنان نے اس پراجیکٹ سے کوئی مالی منفعت حاصل کی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی وضاحت کی گئی تھی کہ اس بات کے بعد کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جس سے یہ ثابت ہوسکتا کہ کوفی عنان کے صاحبزادے کوجو عنان نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد عنان کے مشیر نے ایک خط میںلکھاتھا کہ رپورٹ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کمیشن کے سامنے ایسا کو ئی ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا جس سے ظاہر ہوتا کہ کوجو عنان نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کسی فرد سے کسی قسم کاکوئی رابطہ کیاہو یابات کی ہویا ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے کسی بھی طرح ان پر اثر انداز ہواہو۔
ہم حیران تھے کہ ڈیٹا ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ ہمارے پاس پہنچ رہاتھا اور ہمارے کچھ کیے بغیر ہی بہت سے راز خود بخود ہمارے سامنے منکشف ہورہے تھے۔ بعض اوقات یہ سب کچھ راتوں رات ہوجاتاتھا۔ شاید اس کا سبب امریکا اور جرمنی کے درمیان وقت کافرق تھا ۔اب یہ ڈیٹا 24گھنٹے ہمارے پاس پہنچ رہاتھا۔ہم لنچ کرکے واپس آنہیں پاتے تھے کہ کسی نہ کسی نئے سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کانام ہمارے سامنے آجاتاتھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں