پٹہ سسٹم کے سرغنہ شہزاد آرائیں کی گرفتاری کا خطرہ، 17افسران معطل
شیئر کریں
( رپورٹ: نجم انوار)اپنے آقاؤں کو کئی ارب روپے کا چونا لگانے والے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ پٹہ سسٹم کے خلاف نگراں وزیر بلدیات سندھ مبین جمانی کے حکم پر کارروائی کا آغا ز کرتے ہوئے17افسران و ملازمین معطل کر دیے گئے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران نے سسٹم کے سرغنہ شہزاد آرائیں اور فیصل میمن کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہزاد آرائیں نے اپنے آقاؤں کو کئی ارب روپے کا چونا لگا کر اس سال کا سب سے بڑا دھوکااور فراڈ کیا ہے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ معطل کیے جانے والے افسران و ملازمین میں قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر راشد علی ناریجو اور ریاض حسین، قائم مقام اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد آصف شیخ اور عبدالسمیع شیخ، سینئر بلڈنگ انسپکٹر محمد شہریار مقصود ،بلڈنگ انسپکٹر سید کامران حسین ، جونیئر کلرک محمد یعقوب، ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر انجینئر اعجاز علی بروہی، ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر آغا جہانگیر خان، ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر احسان ادریس، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نجم الدین قریشی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر غلام مرتضیٰ تونیو، سینئر بلڈنگ انسپکٹر انجینئر احسان ریاض خشک ، بلڈنگ انسپکٹر عمیر خان ڈائیو، بلڈنگ انسپکٹر فرحان ایوب شیخ اور جونیئر کلرک عارف محمود شامل ہیں۔ دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران و ملازمین کی جانب سے سوک سینٹر و اطراف میں پوسٹر اور بینر آویزاں کر دیے گئے ہیں جن میں نگراں وزیر اعلیٰ اور نگراں وزیر بلدیات سے مطالبات کیے گئے ہیں کہ سابق وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں کرپٹ سسٹم چلانے والے بلڈنگ انسپکٹر شہزاد آرائیں اور فیصل میمن کو فوری طور پر گرفتار کرایا جائے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سسٹم سے پاک کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ محسن کش شہزاد آرائیں نے دولت کی لالچ میں پہلا شکار اپنے منہ بولے باپ ڈائریکٹر جمیل احمد میمن کو بنایا۔ ایک اور ڈائریکٹر مشتاق سومرو کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر سندھ سیکریٹریٹ بھجوایا۔ ذرائع کے مطابق گریڈ 14 کے بلڈنگ انسپکٹر شہزاد آرائیں کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس کی مرضی سے چلتے ہیں اور سابق ڈی جی منظور قادر کاکا کو اسی نے جیل بھجوایا ہے۔ اس نے اپنے کارندوں کو پیغام دیا ہے کہ اس کے موجودہ نگراں وزیر بلدیات سندھ مبین جمانی سے معاملات طے ہو گئے ہیں اور وہ 5 ستمبر کو واپس آرہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تقریباڈیڑھ سال قبل جب جمیل میمن کو ڈائریکٹر ایسٹ تعینات کیا گیا تو انہوں نے شہزاد آرائیں کو بیٹا بنا کر اندھا اعتماد کیا۔ سابق صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ سے ملوایا لین دین کی ذمہ داری دلائی اور جب شہزاد نے معاملات چلانے شروع کیے تو سب سے پہلے اپنے منہ بولے باپ کی پیٹ میں چھرا گھونپا اور جمیل میمن کو معطل کرا کر پورا ڈسٹرکٹ ایسٹ اپنے قابو میں کر لیا ۔اس کے بعد شہزاد نے سسٹم کے بڑوں کی کمزوری پکڑ کر ڈسٹرکٹ ساوتھ کی سب سے زیادہ بولی دے کر وہاں بھی قبضہ جما لیا ۔جبکہ ڈسٹرکٹ سینٹرل پہلے ہی اسے مل چکا تھا۔ ذرائع کے مطابق شہزاد نے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ سے وابستہ افراد اور بیورو کریسی کے چند افسران کو ان کے جائز کام ہاتھوں ہاتھ کر کے دیے اور یوں اپنے تعلقات استوار کیے۔ پھر انہی لوگوں کا نام استعمال کر کے ناصر شاہ کو چونا لگا کر رونا دھونا بھی شروع کر دیا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو آمدنی میں کمی اور افسران کا عدم تعاون بتایا اور پھر آمدنی میں اضافے کے راستے بھی دکھائے اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ڈائریکٹر مشتاق سومرو کا تبادلہ کرا دیا ۔تمام افسران کو ڈرا دھمکا کر غلط کام کرنے کی کوشش کی تو چند سمجھدار ڈائریکٹر نے اپنے آپ کو علیحدہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ جبکہ بعض نے اپنے آپ کو اندرون سندھ تبادلے سے بچانے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کیا پوسٹنگ لی لیکن اپنے آپ کو سسٹم سے الگ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سمیع جملانی اور آصف رضوی شہزاد آرائیں کے کلرک بن ک کام کرتے رہے۔ آج کل جب سمیع چھٹیوں پر بیرون ملک میں ہے تو ان کا کام بھی آصف رضوی دیکھ رہا ہے جو بوقت ضرورت اپنی بیماری کو خود ہی بڑھا لیتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا سسٹم اتنا بے لگام ہوا کہ آباد کے بااثر ممبران بلڈر حنیف گوہر اور حنیف چارلی سے بھی بھتہ مانگ لیا گیا۔اُن کی جانب سے بھتے نہ دینے پر دونوں کے پروجیکٹ پر انہدامی کارروائی کرائی گئی جبک دونوں پروجیکٹ کے پلان بلڈنگ کنٹرول سے منظور شدہ تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈی جی بھی بالائی حکم پر شہزاد آرائیں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ اس سے قبل اینٹی کرپشن ، اسٹیبلشمنٹ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہر میں 55 ارب روپے سے زائد مالیت کی غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں جن میں سرکاری خزانے کو کئی ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہزاد آرائیں جب بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اپنی انگلیوں پر نچانے لگا تو غرور و تکبر میں فرعون بن گیا ۔ہر کام کا منہ مانگا دام لینے لگا جو بلڈنگ پلانز پہلے ایک سے دو کروڑ روپے میں منظور ہو جاتا تھا، اس کے دام 10 سے 12 کروڑ روپے پر پہنچا دیے لیکن وہ جو رقم اوپر پہنچا رہا تھا اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ آقاؤں کے ساتھ کئی ارب روپے کا بڑا دھوکا اور فراڈ کیا ہے اور اب بھی وہ عام محفلوں میں یہ کہتا پایا گیا ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی میری مرضی سے چلتے ہیں۔ شہزاد آرائیں کے حوالے سے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران شہزاد آرائیں نے عمرہ کے نام پر جو ان گنت غیر ملکی دورے کیے ہیں، وہ سب پٹہ سسٹم کے مکروہ کھیل کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آرائیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بہانے کبھی بھی بیرون ملک فرار ہو سکتا ہے لہٰذا فوری طور پر اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جانا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی فائل روک کر رقم طلب کرنے پر شہزاد آرائیں کو صوبائی سیکریٹری نجم شاہ نے معطل کر کے سندھ سیکریٹریٹ میں حاضری لگانے کا پابند کیا ہے۔