ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردخاک
شیئر کریں
ممتاز عالم دین جامع العلوم الاسلامیہ بنوری ٹان کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے صدر اور عالمی مجلس عمل کے مرکزی امیر شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر 86سال کی عمرمیں کراچی میں انتقال کرگئے ، جامعہ بنوری ٹاؤن میں نماز جنازہ اور وہیں تدفین ہوئی ، نماز جنازہ میں ہزاروں نے شرکت کی اور ہر آنکھ اشبار تھی ، مختلف علما اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی وفات ملک وملت کا بہت بڑا سانحہ قرار دیا ہے ۔شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر تقریبا 3 ہفتوں سے علیل اور مقامی نجی ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ مولانا عبدالرزاق اسکندر 1935 میں ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی دینی و عصری تعلیم آبائی گاؤں اور ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف اور احمد المدارس سکندر پور میں حاصل کی ۔ 1952 میں مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کے مدرسہ دارالعلوم کراچی (نانک واڑہ )میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی۔ دور حدیث محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے مدرسہ جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے کیا اور درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے ۔ 1962 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں 4 سال تک زیر تعلیم رہے ۔ جامعہ ازہر مصر میں 1972 میں داخلہ لیا، اور چار سال میں پی ایچ ڈی کی ، جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی کے عنوان سے مقالہ لکھا ۔ انہوں نے 71برس تعلیم و تعلم میں گزارے اور 46برس سے حدیث پڑھانے والے جامعہ بنوری ٹاؤن کے پہلے طالب علم ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر جامعہ دارالعلوم کراچی کے ابتدائی طلبا میں سے تھے ۔مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم اور شیخ الحدیث ،فاق المدارس العربیہ پاکستان، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے صدر ، عالمی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مرکزی امیر اور اقرا روضہ الاطفال ٹرسٹ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ تھے ۔ ان کے اساتذہ میں علامہ سید محمد یوسف بنوری، حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی ،مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل ، مولانا عبدالرشید نعمانی،مولانا لطف اللہ پشاوری، مولانا سبحان محمود،مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا بدیع الزماں اور دیگر جید علمائے کرام ہیں ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی اور ڈاکٹر عبدالحیٔ عارفی سے بیعت اورمولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اور مولانا سرفراز خان صفدر خلیفہ مجاز تھے ۔جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے تعلق 1955 میں بطور طالب علم سے مہتمم تک تاحیات رہا۔ 1981 میں عالمی تحفظ ختم نبوت کی مجلسِ شوری کے رکن ، 2008 میں سید نفیس الحسینی شاہ کے وصال کے بعد نائب امیر اور 2015 میں مولانا عبدالمجید لدھیانوی کے انتقال کے بعد مرکزی امیر منتخب ہوئے ۔ 1997 میں ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر وفاق المدارس العربیہ کی وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رکن، 2001 میں نائب صدر اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان کے انتقال کے بعد 2017 صدر منتخب ہوئے ، 3 جون 2021 کو ایک مرتبہ پھر آئندہ 5 سال کے لئے وفاق کے صدر منتخب ہوئے گئے ۔ 2017 سے تمام مکاتب فکر مدارس دینیہ کی تنظیم اتحاد مدارس دینیہ کے صدر بھی رہے ۔ ایک درجن سے زائد عربی اور اردو زبان میں تصانیف و تالیفات ہیں ، جن میں الطریق العصری، کیف تعلم اللغ العربی لغیر الناطقین بھا، القاموس الصغیر، مقف الام الاسلامی من القادیانی، تدوین الحدیث، اختلاف الام والصراط المستقیم،جماع التبلیغ و منھجہا فی الدعو، ھل الذکری مسلمون؟ ، الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار، الاسلام و اعداد الشباب، تبلیغی جماعت اور اس کا طریقِ کار،چند اہم اسلامی آداب،محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین اور دیگر شامل ہیں ۔ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی نمازِ جنازہ بنوری ٹاؤن میں رات 10 بجے ادا کی گئی اوراُنہیں بنوری ٹائون میں سپرد خاک کیاگیا۔ مرحوم کے اہل خانہ میں بیوہ، دو فرزند مولانا ڈاکٹر سعید خان اسکندر،مفتی محمد یوسف اسکندر اور تین صاحبزادیاں ہیں،جبکہ لاکھوں آپ کے فیض یافتہ روحانی فرزند دنیا بھر میں موجود ہیں۔ دریں اثنا مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی ،شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی، جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، مولانا راشد، سومرو ، قاری محمد عثمان ، تنظیم اہلسنت والجماعت کے مرکزی امیر مولانا قاضی نثار احمد ، مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، محمد حسین محنتی ، حافظ نعیم الرحمان ، جمعیت علما پاکستان کے شاہ محمد اویس نورانی ، مولانا عبد الرحمن سلفی اور دیگر نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی وفات ملک وملت کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے ملک وملت کے لئے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ صرف انکے اہل خانہ اور اہل مدرسہ نہیں، پوری علمی دنیا مستحق تعزیت ہے ۔