فارما مافیا اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ملی بھگت، مریض اور صارفین بے بس
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل) دنیا بھر میں ادویات کی قیمتوں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی ناجائز منافع خوری کو روکنے کے لیے مجاز ریگولیٹری اتھارٹیز ایک موثر ’ڈرگ پرائسنگ پالیسی‘ کے تحت قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ڈرگ پرائسنگ پالیسی پہلی بار چار سال قبل 2015میں تیار کی گئیں۔ اس پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے کہاکہ’عوام تک موثر، معیاری اور نئی تحقیق سے تیار ہونے والے ارزاں قیمت ادویات کو مریضوں تک پہنچانے کے لیے یہ پالیسی بنائی گئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ڈریپ میں سفارشی کلچر کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے قیمتوں کے تعین کا ایک نیا خود کار نظام متعارف کروایا ہے جس کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے ہوگا۔‘ ڈریپ کا یہ بیان اسی سیاسی بیان کی طرح تھا جنہیں ہمارے سیاست دان گزشتہ 72سالوں سے کسی طوطے کی طرح پڑھ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ پالیسی خالصتاًفارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مفاد میں بنائی گئی تھی۔ اس پالیسی کے تحت اس وقت مہنگائی کی شرح (4.16) مد نظر رکھتے ہوئے شیڈولڈ ڈرگز کی قیمتوں میں 2.08 فیصد اور نان شیڈولڈ ادویات کی قیمتوں میں 2.91 فیصد کی منظوری دی گئی۔
ہائی کیو،ہلٹن، میڈی شیور، جی ایس کے پاکستان، افروز اور ان جیسی بہت سی فارما کمپنیاں ریفرنس پراڈکٹ کی آڑمیں نہ صرف خام مال کی انوائسز میں ہیر پھیر کرتی ہیں بلکہ ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018کی بدترین پامالی کی مرتکب بھی ہورہی ہیں
لیکن فارماسیوٹیکل مافیا نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا۔ ادویہ ساز اداروں کی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے نیشنل ہیلتھ سروسز کو ادویہ کی قیمتوں کے تعین کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا حکم دیا۔ اس پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ قاضی عبدالصبور کو دی گئی۔ اس کمیٹی نے بین الاقوامی مارکیٹ میں خام مال کی قیمت، ڈالر کی قیمت، خام مال کے ماخذ، ادویات کی تیاری میں خام مال کے ساتھ ساتھ پیکیجنگ، کی قیمت اور اس کا معیار طے کرنے کے لیے ایک فارمولا تیار کیا جس کی رُو سے قومی اور کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کی قیمتوں کو ایک مخصوص حد تک رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔اس کمیٹی کی سفارشات پر 2018ء میں ایک اور ڈرگ پرائسنگ پالیسی پیش کی گئی، لیکن ’ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘ کے مصداق اس پالیسی میں فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو پہلی پالیسی سے زیادہ نوازا گیا۔ اس پالیسی کے بارے میں بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے وہی رٹے رٹائے جملے ’حکومت نے ادویات کی قیمتوں پر قابو پانے اور اس میں کمی کے لیے ایک شفاف ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018متعارف کروائی ہے۔جس میں صوابدیدی اختیارات اور کرپشن کا خاتمہ کردیا گیا ہے، یہ پالیسی میرٹ کی بنیاد پر تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے بنی ہے اور عوام جلد ہی اس پالیسی کے ثمرات سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیں گے۔‘
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے شعبہ برائے کاسٹنگ اور پرائسنگ کی ایک دستاویز کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں ادویات کے بہت سے خام مال کی قیمتوں میں کئی سو فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن فارما کمپنیوں نے اپنی قیمتیں وہی رکھی ہوئی ہیں
اس پالیسی میں جینیرک ادویات کی کم قیمت پر رجسٹریشن کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کینسر، ذیابیطس، دمہ، ہیپاٹائٹس، کالی کھانسی، خناق، تشنج اور بلند فشار خون کی ادویات اور ویکسین کو نہایت ارزاں قیمتوں پر فراہم کرنے کے وعدے بھی کیے گئے۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تمام تر دعووں کے باوجود ادویہ ساز اداروں کی منی لانڈرنگ اور ناجائز منافع خوری کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری پاکستان میں حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانے والی صنعتوں میں سب سے آگے ہے، لیکن فارما سیوٹیکل مافیا ڈالر کی قیمت میں ایک روپے اضافے کو عوام سے دس روپے کی صورت میں وصول کرلیتی ہے لیکن ڈالر کی قدرمیں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے بجائے خود دبا لیتی ہے۔ ہائی کیو،ہلٹن، میڈی شیور، جی ایس کے پاکستان، افروز اور ان جیسی بہت سی فارما کمپنیاں ریفرنس پراڈکٹ کی آڑمیں نہ صرف خام مال کی انوائسز میں ہیر پھیر کرتی ہیں بلکہ ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018کی بدترین پامالی کی مرتکب بھی ہورہی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے شعبہ برائے کاسٹنگ اور پرائسنگ کی ایک دستاویز کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں ادویات کے بہت سے خام مال کی قیمتوں میں کئی سو فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن فارما کمپنیوں نے اپنی قیمتیں وہی رکھی ہوئی ہیں۔ ڈرگ پرائسنگ پالیسی کے تحت ادویات کی قیمتوں کا تعین بین الاقوامی مارکیٹ میں خام مال کی قیمت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس ضمن میں ادویہ ساز اداروں کو کھل کر ’کالا دھن‘ کمانے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ایک دستاویز کے مطابق 2005ء میں معدے کے امراض میں استعمال ہونے والے موثر جُزEsomeprazoleکی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں 600ڈالرفی کلو تھی۔ اس وقت ایک ڈالر پاکستانی60روپے کے برابر تھا۔اس حساب سے اس وقت اس خام مال کی فی کلو قیمت 36ہزار روپے بنتی تھی۔ 2015ء میں اس خام مال کی قیمت کئی سو فیصد کمی کے بعد 36ڈالر فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔2015میں ایک ڈالرکی قدر 102 پاکستانی روپے تھی، جس کے لحاظ سے ’ایس اومیپزازول‘ کی فی کلو قیمت 900فیصد کمی کے بعد 3672روپے فی کلو تک آگئی تھی۔ 2018ء میں اس خام مال کی قیمت 6 ڈالر اضافے کے بعد 42ڈالر فی کلو ہوگئی، اس وقت کے ڈالر ریٹ کے حساب سے تقریبا5000روپے فی کلو۔ لیکن سرمایہ کاروں کو نوازنے کے چکر میں بین الاقوامی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ کا براہ راست فائدہ عام صارف تک منتقل نہیں کیا گیا۔
فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہزار فیصد تک ناجائز منافع خوری کرنے کے باوجود ٹال مینو فیکچرنگ، غیر معیاری ادویات کے نام پر عوام کو زہر کھلا رہی ہیں۔ ِِِِِِِِبہت سی ادویہ ساز کمپنیاں اپنی پیداواری لاگت میں کمی کے لیے مذکورہ دوا میں موثر جُز کو یو ایس پی (یونائٹیڈ اسٹیٹس فارما کوپیا) میں متعین کردہ مقدار سے کم ڈال رہی ہیں، ایسی دوا جس میں موثر جز کی مقدار میں کمی ہو اسے غیر معیاری اور جعلی ادویات کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے۔ زبیر میمن اور اسلم پولانی عرف جاوید کولمبوکی سرپرستی میں کراچی کی کچھی گلی ایسی ادویات کا گڑھ بن چکی ہے۔ اس طرح کی ادویات کی فروخت میں TP(ٹریڈ پرائس) کی بجائےNETکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دوا کے پیکٹ پر قیمت200روپے درج ہوتی ہے، لیکن اسے ہول سیل پر بیس سے تیس روپے میں فروخت کیا جاتاہے۔ کچھ عرصے قبل تک یہ ادویات زیادہ تر ڈاکٹر حضرات کے ساتھ واقع میڈیکل اسٹور پر ملتی تھیں لیکن ہائی کیو فارما، ہلٹن اور میڈی شیور نے اپنے ’طبی نمائندوں‘ کی مدد سے اس کالے دھندے کو ملک بھر کے مشہور و معروف اسپتالوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ کمپنیاں چھوٹے کلینکس میں ڈاکٹروں کو فی پیکٹ کمیشن اور بڑے اسپتالوں میں شرا ب و شباب تک فراہم کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی زرپرستی کی وجہ سے مریض کثیر القومی دوا کی قیمت میں غیر معیاری دوا خرید کر مزید بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس بات کا واضح ثبوت ڈاکٹروں کا تجویز کردہ نسخہ ہے، ہم میں سے اکثر اس بات کا تجربہ کرچکے ہیں کہ جو دوا جس ڈاکٹر نے لکھی ہو، وہ اس کلینک یا اسپتال کی فارمیسی میں ہی ملتی ہے۔ مریضوں کو لوٹنے کا ٰیہ مذموم کاروبار پورے پاکستان میں ادویہ ساز اداروں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، وفاقی اور صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کی سرپرستی میں کئی دہائیوں سے جاری ہے اور فارما مافیا میں اس کھیل کی بہترین کھلاڑی ہائی کیو، میڈی شیور، افروز ہیں جنہوں نے مارکیٹنگ جیسے پیشے کو بھی اپنی زرپرستی سے دلالی کے درجے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ہائی کیو فارما، ہلٹن فارما اور میڈی شیور کی جانب سے موثر جز ’ایس اومیپرازول‘ پر کمائے جانے والے کئی سو گنا زائد منافع اور ڈاکٹروں کو دی جانے والی‘ مراعات‘ کی تفصیلات آئندہ شامل اشاعت کی جائیں گی۔(جاری ہے)