میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
نذر کی ادائیگی کاطریقہ
سوال:میں نے نذرمانی تھی کہ اگر میرافلاں کام ہوگیاتومیں اللہ کے نام پر کھانے کی ایک دیگ دوں گا،اب ایک تومجھ سے ادائیگی میں کافی تاخیرہوگئی ہے ، کیااس کی وجہ سے میں گناہ گارہوں؟اور دوسرایہ کہ اس کی ادائیگی کاطریقہ کیاہوگا؟کیامیں اس سے لوگوں کوجمع کرکے ان کی دعوت کرسکتاہوں؟
جواب:۱۔نذرکی ادائیگی کوجس کام پرمعلق کیاہوجب وہ کام ہوجائے توشرط مکمل ہوگئی اس کے بعد اب نذرکی ادائیگی واجب ہے،آپ نے چونکہ کوئی وقت متعین نہیں کیاتھا اس لیے تاخیرسے گناہ گارنہیں ہوئے تاہم واجب آپ کے ذمہ ہے اس لیے جلداس ذمہ داری سے اپنے آپ کو فارغ کردینااچھاہے۔
۲۔نذرکاکھاناخودنذرماننے والا اور مالدار لوگ نہیں کھاسکتے،بلکہ یہ غریبوں کا حق ہے، نذر ماننے کی صورت میں جب کام ہوجائے تو دیگ بناکرفقراء،مستحق لوگوں کوکھلادیں،لوگوں کو جمع کرکے دعوت کرناجس میں امیرغریب سب شریک ہوں،درست نہیں بلکہ فقراءاور مستحق لوگوں کوکھلاناضروری ہے، ورنہ نذرپوری نہیں ہوگی۔نیزاگردیگ کے بجائے اس کی قیمت فقراءمیں تقسیم کردے یہ بھی جائز ہے اوراس سے بھی نذرپوری ہوجائے گی۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکوة،مصارف الزکوة،2/157، ط: رشیدیہ- فتاویٰ ہندیہ، کتاب الاضحیة، 5/300، ط:رشیدیہ)
فجرکی قضاشدہ نمازکی ادائیگی
سوال:فجرکی نمازرہ جائے تو اگرسورج طلوع ہونے کے بعد اداکرناچاہوں توپوری نمازپڑھوں گایاصرف فرض ؟اور اگر ظہرکی نمازکے بعد اداکروں تو اس وقت کتنی رکعتیں اداکرنی ہوں گی؟اور نماز ادا کہلائے گی یاقضائ؟
جواب:فجرکی نمازوقت پراداکرنی چاہیے، جان بوجھ کرقضاکرناگناہ ہے،نمازفجراور عشاءکی حدیث شریف میں بڑی تاکیدآئی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”فجراور عشاءکی نمازمنافقین پرسب سے بھاری ہے،اگرلوگوں کوان نمازوں کے اجروثواب کا علم ہوتاتوان نمازوں میں ضرور حاضرہوتے خواہ انہیں رینگتے ہوئے آناپڑتا“۔اگرکسی عذر سے فجرکی نمازرہ جائے توبیدارہونے کے بعدپہلی فرصت میں اُسے اداکرناچاہیے،زوال سے قبل فجرکی نمازسنتوں سمیت قضاپڑھی جائے گی اور ظہرکے بعداداکریں گے توصرف فرض پڑھے جائیں گے۔نمازقضاءکہلائے گی۔(مشکوة المصابیح، فضائل الصلوة، ص:62،ط:قدیمی کراچی- فتا ویٰ ہندیہ،کتاب الصلوٰة، 1/112، ط: رشیدیہ کوئٹہ)
ایصال ثواب کاشرعی طریقہ
سوال:میں اپنے مرحوم والدین کے لیے قرآن اور ذکرواذکارپڑھ کرایصال ثواب کرتاہوں،کیاکسی کو کھانا کھلاکریاکپڑے دے کربھی ایصال ثواب کرنادرست ہے یانہیں؟
جواب:انسان نفلی نماز،روزہ اور صدقہ وغیرہ کاثواب دوسرے کوپہنچاسکتاہے۔ایصال ثواب جس طرح نفلی عبادات کے ذریعہ درست ہے اسی طرح فقراءکوکھانااورکپڑاوغیرہ دے کربھی ایصال ثواب کرنابھی جائزہے۔مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”اموات کوصدقات وخیرات اور عبادات بدنیہ کاثواب پہنچتاہے ،اور ثواب پہنچانامستحسن فعل ہےایصال ثواب کی شرعی صورت اس قدر ہے کہ جوشخص ایصال ثواب کرناچاہتاہے،وہ اگرعبادت مالیہ کا ثواب پہنچاناچاہتاہے،توجوکچھ اس کومیسرہوبغیرکسی خاص دن کی تعیین اور کسی خاص چیز کی تخصیص یاکسی خاص ہیئت کی تشکیل کے صدقہ کردے،یعنی فقراءومساکین کودے دے ،اور اللہ تعالیٰ سے دعاکرے کہ یااللہ!میں نے جوکچھ صدقہ تیری راہ میں تیری رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے کیاہے اس کاثواب اپنی رحمت سے فلاں میت کوپہنچادے،اسی طرح کوئی عبادت بدنیہ اگرکرناچاہتاہے توبغیرتعیین وتخصیص کوئی عبادت بدنیہ اداکرے،مثلاً نفل نمازپڑھے یاروزہ رکھے،یاقرآن مجیدکی تلاوت کرے یادرود شریف پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب پہنچانے کی دعاکرے پس یہ طریقہ ایصال ثواب کا شرعی طریقہ ہے“۔(فتاویٰ شامی، 2/243،ط:سعید-کفایت المفتی، 9/100، ط:دارالاشاعت کراچی)
نوافل کے لیے کوئی سورة مخصوص نہیں
سوال:چاشت اور اشراق کی نفل نمازوں میں سورہ¿ اخلاص پڑھناضروری ہے؟
جواب:نفل نمازوں میں پڑھنے کے لیے شرعی طورپرکوئی سورةمخصوص نہیں،جوسورة یادہوپڑھ سکتے ہیں۔چاشت اور اشراق کے نوافل میں بھی سورہ¿ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورة پڑھناچاہیں درست ہے۔
ابوبکرنام کا مطلب
سوال:ابوبکرنام کامعنی کیاہے؟اور اگرکوئی بچے اس نام کاہواور بیماررہتاہوتوکیااس نام کوتبدیل کردیں؟کسی نے کہاہے کہ اس نام کااثرہے۔
جواب:”ابوبکر“نام رکھنادرست ہے، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی کنیت”ابوبکر“تھی، بہت ساری احادیث میں یہ کنیت مذکورہے، ”بکر“کے معنی اولیت اور سبقت کے آتے ہیں،”ابوبکر“کے معنی ”ہرکام میں سبقت اورپہل کرنے والے“۔سیرت حلبیہ میں ہے:”قال الزمخشری ولعلہ کنی با¿بی بکر لÊبتکارہ الخصال الحمیدة“علامہ زمخشری نے لکھاہے کہ ”ابوبکر“کنیت پڑنے کی وجہ شایدیہ تھی کہ وہ اپنی اچھی صفات میں یکہ وتنہاتھے،(کیونکہ بکر کے معنی عمدگی اور یکتائی کے ہیں)“۔(سیرت حلبیہ1/441، ط: دارالمعرفہ بیروت)
اپنے سوالات اس پتے پر بھیجیں
انچارج”فہم دین“ روزنامہ جرا¿ت‘ ٹریڈ سینٹر‘ نویں منزل 907‘ آئی آئی چندریگر روڈ کراچی
masail.juraat@gmail.com


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں