پاکستان کا فکری منظرنامہ
شیئر کریں
محمد دین جوہر
ان دنوں پاکستان کا علمی اور فکری منظرنامہ سرگرمی اور سرگرانی سے عبارت ہے، اور قومی زندگی کے ہر اہم پہلو پر داد سخن دی جا رہی ہے۔ ہر قوم کی سلامتی اور شناخت میں اجتماعی فکر کے حامل بیانیے کو اولین اہمیت حاصل ہے، اور جو ترقی اور طاقت میں بھی ہراول کا کام کرتا ہے۔ عصر حاضر میں قومی شناخت اور اجتماعی قوتِ عمل کو باقی رکھنے میں بیانیہ لازمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بیانیہ ہر قوم اپنے خاص تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں تشکیل دیتی ہے، اور جو اس کی متعین شناخت کو بیان کرتا ہے اور اس کے سیاسی عمل کی بنیاد بنتا ہے۔ قومی بیانیہ کوئی عام علمی، ادبی یا اخباری بیان نہیں ہوتا جس کو کسی مکتبی یا میڈیائی منطق پر ڈھالا گیا ہو۔ بیانیہ ارادی طور پر اختیار کردہ اور اپنی نوعیت میں سیاسی ہوتا ہے، جو کسی قوم کی تہذیبی شناخت، ارادی پسند ناپسند، دنیاوی مقام و مرتبے اور اجتماعی اقدار کو ظاہر کرتا ہے، یعنی بیانیہ کسی معاشرے کا تعارف اور عزم بیک وقت ہوتا ہے۔ تخلیقِ پاکستان سے نئی صدی کے آغاز تک نظریہ¿ پاکستان ہمارے قومی بیانیے کے طور پر موجود رہا ہے، لیکن ۲۰۰۱ءکے بعد سیاسی طاقت کے علاقائی اور عالمی نظام میں وقوع پذیر تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارا قومی بیانیہ شدید دباو¿ کا شکار ہے۔ پاکستان اور اس کے قومی بیانیے پر ہر طرف رد و کد شروع ہوئی ہے جس کے کچھ پہلو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ۲۰۰۱ءکے معاً بعد پاکستان اور اس کے قومی بیانیے پر برطانیہ، فرانس، بھارت اور خاص طور پر امریکا میں بے شمار مضامین اور کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اس علمی سرگرمی کا بنیادی مقصد پاکستان کی شناخت اور اس کے وجود کا اظہار کرنے والے بیانیے کا ”علمی“ تجزیہ کرنا، اس کے ”تضادات“ کو سامنے لانا اور آخرکار اس کے جواز کو ختم کرنا ہے۔ دیکھا دیکھی ہمارے ”روشن خیال“ مذہبی اور غیرمذہبی دانشوروں نے بھی تان اٹھائی، اور بحث شروع کر دی۔ اس کا بحث کا بنیادی مقصد بھی وہی ہے جو عالمی طاقت کے زیرسایہ ہونے والی علمی ”تحقیق“ میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستان پر سامنے آنے والی نئی ”علمی“ کارگزاری کا اصل نکتہ پاکستان میں سیاسی طاقت اور اسلام کے معانقے کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کا حصول اسلام کی بالکل ہی اقتصادی تعبیرات اور نظریہ پاکستان کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بحثوں میں اسلام کی سیاسی معنویت اور نظریہ پاکستان کے جواز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
(۲) برصغیر میں مسلم تاریخ کی بعض بدیہیات سے اغماض یا انکار کی وجہ سے مغربی اور مخالفانہ ”علمی“ کارگزاری پاکستان کے ”معمے“ اور ”اشکال“ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور اس کا نتیجہ سرگرانی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ سارے ”علمی“ مباحث امریکا کی استعماری طاقت اور ایجنڈے کی جوازکاری کے لیے گھڑے جا رہے ہیں، لیکن بات بن نہیں پا رہی اور امریکا کی برہمی روز افزوں ہے۔
(۳) ہمارے ہاں لبرل، سیکولر اور مارکسسٹ اہل علم بھی اپنی دانش ارزانی فرما رہے ہیں، لیکن ان کے ہاں ٹھوس علمیت کا اظہار کم ہے، طنز و تعریض و تضحیک کا غلبہ زیادہ ہے۔ اس امر سے تو ہرگز انکار نہیں کہ پاکستان اس وقت ایک بڑے تہذیبی بحران سے گزر رہا ہے، اور اس موقعے پر ان کی طرف سے اگر سنجیدہ کلامی کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی تو قومی فکر کے لیے مفید ہو سکتی تھی۔ لیکن ان کی عمومی علمی نااہلیت اور تحقیری ذہنیت بہت مایوس کن رہی ہے۔ ان کے تحقیری رویوں کا منبع ان کی ہمعصر مغرب سے مکمل عینیت ہے اور اسی کو وہ اپنے ”علم“ کی دلیل بھی سمجھ رہے ہیں اور سامنے بھی لا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ طنز لطیف تہذیب کی علامت ہے، لیکن ان کے ہاں طنز اور پھکڑبازی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا۔ قومی فکر کی جدلیات کے موجودہ لمحے میں صرف طنز پر انحصار محض نادانی تو ہے ہی، اہل وطن سے بے وفائی بھی ہے، کیونکہ آج کے کانٹے دار لمحے میں، اور متبادل اور متضاد فکر کی جدلیات میں، مشترکہ قومی مقاصد کی طرف پیشرفت ہو سکتی تھی۔ نظریہ¿ پاکستان کے ایک عام حامی کی حیثیت سے مجھے اپنی بے بضاعتی کا نہ صرف ادراک ہے، بلکہ اعتراف بھی ہے۔ لیکن ان اہل دانش کی طرف سے تو کوئی تیسرے درجے کی علمی تحریر بھی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔
(۴) اس منظرنامے میں متجددین کی صورت حال نہایت قابل رحم ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ابھی خود بھی یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ عام لوگوں کے ساتھ ہیں، سیکولرسٹوں کے حامی ہیں، پاکستان کے ساتھ ہیں یا امریکا کے ساتھ ہیں۔ لوگوں میں ان کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ علم اور استدلال کی بات کرتے ہیں، لیکن قرین حقیقت یہ ہے کہ وہ یا تو روہانسا وعظ کرتے ہیں، یا تضحیک و تذلیل کرتے ہیں۔ میرا گمان یہ ہے کہ وہ صرف اپنے ہی ساتھ ہیں۔ لیکن ان کے پیدا کردہ مذہبی اور سیاسی التباسات بہت خطرناک ہیں اور ان کو دور کرنا کم از کم اس وقت ایک قومی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔
(۵) پاکستانی عوام کی بڑی اکثریت روایتی مذہبی مزاج رکھتی ہے، اور اس کے مذہبی عمل اور رویوں پر فرقہ وارانہ تصورات کا غلبہ ہے، لیکن وہ اپنے اجتماعی سیاسی اور معاشی مسائل کا حل اسلامی تعلیمات ہی میں ڈھونڈنے کی خواہاں ہے۔ ہماری اجتماعی اقدار اور ہم عصر دنیا میں فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے، اور روایتی مذہبی آدمی اس کا احساس تو رکھتا ہے، لیکن ادراک کوئی نہیں رکھتا۔ ایسے علمی اور ثقافتی وسائل جو اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے ضروری ہیں، ابھی تک ہمارے دماغ اور دسترس دونوں سے باہر ہیں۔ اس لیے موجودہ بحث میں پاکستان کی بڑی اکثریت کا کوئی ایسا فکری موقف موجود نہیں جو دینی اور علمی دونوں اعتبار سے ثقہ ہو۔ اور یہ صورت حال بہت عرصے سے چلی آتی ہے۔ مثلاً جمہوریت یا نظریے پر فکری گفتگو ہو تو ہم ان کی فکری نوعیت یا ماہیت جانے بغیر اس کو اسلامی اور غیر اسلامی بتانے پر اصرار کرتے ہیں۔ اب تک تو اس سے کام چلتا رہا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب اس رویے یا منہج کی بنیاد پر آگے کام چلانا مشکل نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اور عالمی مسائل پر اسلام کا غیرفرقہ وارانہ تہذیبی موقف سامنے لایا جائے۔ صرف جمہوریت یا ریاستی قانون وغیرہ کے بارے میں ”اسلامی“ اور ”غیراسلامی“ کی بحث کیے جانا اب کوئی زیادہ سودمند نہیں رہا۔ پاکستان میں سیکولرزم کے مسئلے کو عالمی صورت حال کے تناظر میں زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اب خود ترسی اور وعظ سے باہر آنے اور اپنے آپ اور دنیا کو غیرجذباتی انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو ہم اپنے تہذیبی تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ہمارا موقف کیا ہے؟ آلودگی کے سنگین مسئلے پر ہمارا موقف کیا ہے؟ دنیا میں کارپوریٹ سرمائے کی تاراج ظلم کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ امریکی قیادت میں عالمی سیاسی نظام مسلمان ملکوں پر جو تباہی مسلط کر رہا ہے اس پر ہمارا تہذیبی موقف کیا ہے؟ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے عالمی نظام کی چولیں اب ڈھیلی ہو گئی ہیں، اور اس پر امریکی گرفت کھسک رہی ہے، اور یہ ایک بڑی جنگ کی طرف لڑھک رہا ہے، اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ اکیسویں صدی کو امریکی صدی بنانے کے ایجنڈے میں امریکا کے لیے نہایت شدید نوعیت کی دشواریاں پیدا ہو گئی ہیں، اور امریکا اس وقت دانت اور مسلمان پیس رہا ہے، اس صورت حال کو ہم اپنے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟ برصغیر میں مسلم قومیت کے کامیاب نظریے سے برصغیر کی تقسیم واقع ہوئی تھی، لیکن ہندو قومیت کے نظریے کا ظہور برصغیر کے لیے کیا امکانات رکھتا ہے؟ ہندو قومیت کے نئے نظریے کے اہداف کیا ہیں اور ہمارے لیے اس کی کیا معنویت ہے؟ ہندو قومیت کا نیا نظریہ اگر اپنے سیاسی اہداف میں کامیاب یا ناکام ہو جاتا ہے تو برصغیر کے لیے اس کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے؟ اہم تر یہ کہ ہندو قومیت کا نظریہ برصغیر میں کون سی تہذیبی اقدار کو سامنے لا رہا ہے؟ یہ چند ایک سوالات صرف مثال کے طور پر ہیں، اور ان سارے سوالوں کے جواب وعظ میں نہیں ہیں، اور نہ کسی ادھار کے تہذیبی تناظر میں ہیں۔ اگر ہمارا کوئی تہذیبی فکری تناظر فی الوقت موجود نہیں ہے، تو اس پر معذرت خواہی کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اب اس فکری تناظر کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی تشکیل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان، اسلام اور نظریہ¿ پاکستان کا دفاع مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔
(۶) اس وقت قومی منظرنامے پر سامنے آنے والے تمام سیاسی تصورات اور مواقف کا میدان جنگ براہ راست یا بالواسطہ پاکستان، نظریہ¿ پاکستان اور اسلام ہے۔ جنگ میں اگر ہتھیار ایک جیسے نہ ہوں تو کامیابی کا امکان نہیں ہوتا۔ جنگ فکری ہو یا جسمی، ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے، اور جس کے لیے لڑی جاتی ہے وہ اقدار ہوتی ہیں۔ فکری جنگ کے وسائل ذہنی اور علمی ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سادہ بات سمجھنے میں صدیاں لگ رہی ہیں۔ اس میں مزید تاخیر پاکستان کے موجودہ فکری منظرنامے میں ہمارے اجتماعی موقف کو مخدوش بنا سکتی ہے۔