متاثرین الائنس موٹرز کو رقوم کی فراہمی میں پیچیدگیاں
شیئر کریں
الائنس موٹرز کے متاثرین نے جرأت سے رابطہ کرکے آفیشل اسائنی کے دفتر کے خلاف شکایتوں کے انبار لگادیے،آفیشل اسائنی کا دفتر متاثرین سے اُن کے اپنے الاٹ شدہ نمبر چھپانے لگا۔متاثرین کو پچیس فیصد رقوم کی فراہمی کا عمل دشوار سے دشوار تر بنایا جانے لگا۔ تفصیلات کے مطابق تحلیل شدہ کمپنی الائنس موٹرز نے اپنے سرمایہ کاروں کو ایک نمبر الاٹ کیا تھا، جس میں اُن کی تمام تفصیلات درج ہوتی تھیں۔ کمپنی کے یہی الاٹ شدہ نمبر رقوم کی تقسیم میں متاثرین کی تفصیلات متعین کرنے میں آفیشنل اسائنی کے دفتر کے لیے مدد گار ثابت ہوئے۔ ہائیکورٹ کے حکم پر 2003ء میں متاثرین کو رقوم تقسیم کرتے ہوئے یہی نمبر شاہ کلید تھا۔ کیونکہ متاثرین جب اپنی رقم کا پچیس فیصد 2003ء میں وصول کرنے آئے تو اس پورے معاملے کو 14سال بیت گئے تھے، تب متاثرین میں سے ہزاروں افراد اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، جب کہ معمولی رقوم والے بڑی تعداد کے متاثرین کمپنی کی جانب سے الاٹ شدہ نمبروں کے کاغذات تک کھو بیٹھے تھے۔ اس موقع پر ٹی جے ابراہیم اینڈ کمپنی / الائنس موٹرزکے پروپرائٹر محمد طیب نے اپنے ریکارڈ سے ان متاثرین کی مدد کرتے ہوئے اُن کے تمام الاٹ شدہ نمبرز آفیشل اسائنی کے دفتر کا آفیشل حصہ بناتے ہوئے ریکارڈ میں محفوظ کیے۔ مگر اب آفیشل اسائنی کا دفتر اس ریکارڈ کو خفیہ رکھ کر متاثرین کی مدد کے بجائے اس میں مشکلات پیدا کررہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق آفیشل اسائنی ڈاکٹر چودھری وسیم اقبال پراسرار وجوہات کے باعث الائنس موٹرز کے متاثرین میں رقوم تقسیم کرنے کا عمل دشوار سے دشوار تر بنانے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ الائنس موٹر زکے متاثرین چونتیس سال سے دربدر ہیں ۔ ہائیکورٹ نے 2003ء کے بعد مزید 25فیصد رقوم کی ادائیگی کا فیصلہ13؍ دسمبر 2021کو دیا تھا۔ موجودہ آفیشل اسائنی نے اس فیصلے پر تقریباً ایک سال سے زائدعرصے تک عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ واضح رہے کہ اس عرصے میں بینک میں موجود رقوم کے حوالے سے متاثرین الائنس موٹرز کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہوئے کہ آخر رقوم موجود ہونے اور عدالتی فیصلے کے باوجود رقوم کی تقسیم میںآفیشل اسائنی ڈاکٹر چودھری وسیم اقبال کیوں رکاؤٹ بنے ہوئے ہیں۔ متاثرین الائنس موٹرز نے اس موقع پر بینک میں موجود رقوم کی شرح سود سے متعلق تفصیلات بھی جمع کیں تاکہ یہ کسی موقع پر عدالت کے روبرو پیش کی جاسکے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ متاثرین کو چونتیس سال بعد مزید پچیس فیصد رقم ادا کرنے میں آفیشل اسائنی کا دفتر پرانے حل شدہ مسائل کو ازسرنو زندہ کررہا ہے۔ الائنس موٹرز کے متاثرین کو 2003ء میں رقوم کی ادائیگی کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا،موجودہ آفیشل اسائنی نے رقوم کی تقسیم کے عمل کو مشکل بنانے کے لیے اس میں نئے نئے رخنے ڈالے، طریقہ کار کے نام پر اس عمل کو پیچیدہ تر بنانے کی کوششیں کیں۔واضح رہے کہ متاثرین اپنے تمام دعویٰ جات (کلیم) 1990ء میں عدالت عالیہ سندھ کو پہلے ہی جمع کراچکے ہیں جس کی منظور شدہ فہرستیں مرتب ہوچکی ہیں ۔اس پورے معاملے میں متاثرین کے لیے ٹی جے ابراہیم اینڈ کمپنی / الائنس موٹرزنے پوری مدد کی ہے جبکہ اس کے پروپرائٹر محمد طیب نے خود کو رضاکارانہ طور پرتقریباً 144 اثاثوں کے ساتھ ہائیکورٹ کے سامنے پیش کردیا تھا۔ اُنہوں نے خود تمام سرمایہ کار متاثرین کی فہرستیں مرتب کرنے میں ہائیکورٹ کی پوری مدد کی۔ اور اپنا دفتری ریکارڈ بشمول اکاؤنٹس بکس تک عدالت میں جمع کرا دیں۔ جس کے بعد متاثرین کی فہرستوں میں کسی قسم کا کوئی شک یا ابہام کسی سطح پر باقی نہیں رہا۔ مگر آفیشل اسائنی کا دفتر خود اپنی مشکوک سرگرمیوں سے اس پورے کھلے ، واضح ، عدالت عالیہ سے منظور شدہ عمل میں اپنی مرضی کے طریقہ کار مسلط کرکے متاثرین کورقوم کی فراہمی کا عمل دشوار سے دشوار بنانے میں مصروف ہے۔