میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیغام سیرت‘اگرآپ تاریخ میں اپنا نام رقم کرانا چاہتے ہیں تو....

پیغام سیرت‘اگرآپ تاریخ میں اپنا نام رقم کرانا چاہتے ہیں تو....

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اشفاق احمد
اسے سیدھا آنے دو اگر کسی نیک ارادے سے آرہا ہے تو ٹھیک ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کروں گا۔
تاریخ عالم یہ بتاتی ہے کہ جن لوگوں نے بھی دنیا میں کوئی کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ اپنی ذات میں کوئی نہ کوئی امتیازی وصف ضرور رکھتے تھے۔ آج ہم اسی موضوع پر بات کرتے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت کو دعوت وتبلیغ کا کام کرتے چار سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا،اس دوران حضور ﷺ نے سیدناعمرؓ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اسلام لانے کی سعادت بخش دیجئے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک پیغمبر کی دعا قبول فرمائی اور سید نا عمر چلتے ہوئے دربار رسالت مآب پہنچے۔ صحابہ کرام ، جو اُن کے مزاج کو جانتے تھے، انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ اللہ ہی خیر کریں تو حضرت حمزہؓ نے فرمایا کہ کوئی ڈروخوف کی بات نہیں عمر کو سیدھا ہمارے پاس آنے دو اگر کسی نیک ارادے سے آرہا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسی کی تلوار سے اسی کا سرقلم کروں گا۔مگر ان کے حق میں تو سرور دو عالم کی دعا قبول ہوچکی تھی ،سو وہ آئے اور اسی روز اسلام لائے۔جسے دیکھ کرصحابہ کرام نے ایک زور دار نعرہ تکبیر لگایا کہ درودیوارہل گئے۔
اب دیکھیے کہ یہ اتنی خوشی کا اظہار کس لیے ہورہا ہے؟؟حضرت عمرؓ کی ان اعلیٰ صلاحیتوں کی وجہ سے جو انہیں دیگر لوگوں سے ممتاز اور نمایاں کیا کرتی تھیں۔ اسی لیے ہم نے عرض کی کہ جن لوگوں نے بھی دنیا میں کوئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں کوئی نہ کوئی امتیازی وصف ضرور رکھتے تھے۔ پھر بعض امتیازی اوصاف تو ہر انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ملتے ہیں ان کے لیے اسے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن چند اوصاف ایسے بھی ہیں جنہیں ہر شخص کو شش کرکے حاصل کرسکتا ہے۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنی شخصیت کو جانچتے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ ہمارے اندر کیا کیا صلاحیتیں ہیں اور عملی زندگی میں ان کے کیا کیا مصرف ہیں اور پھر مصرف ملنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کو کلی طور پر وہاں لگانے سے گریز نہ کریں۔ ذرا غور کیجیے حضرت عمر نے اسلام لانے کے بعد کس طرح مکمل طور پر اپنی صلاحتیں اس راہ پر لگائیں کہ آج بھی آپ کی شخصیت جہاں بانوں کے لیے قطب نما بنی ہوئی ہے۔
اس واقعے کا دوسرا رُخ ہمارے ان ساتھیوں کے لیے ایک روشن باب ہے جو کسی جگہ کے انچارج وسربراہ ہیں کہ اپنے ادارے اور تحریک کے لیے جانثار، فرض شناس اور باصلاحیت لوگوںکی تلاش میں رہیں۔
حضورﷺ کا سید ناعمرؓ کے لیے دعا فرمانا یہ وہ صفت ہے جسے ”قدردانی“کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کسی قوم یا کسی حکومت کے اچھا رہنے کی ایک ضمانت یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار لوگ افراد کی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کی قدر کریں، وہ ایسے افراد کو ان کی صلاحیت کی نسبت سے کام کے مواقع فراہم کریں، ایسے افراد کو وہ جہاں پائیں اس کو اس طرح اٹھالیں جس طرح ایک جوہری راکھ میں پڑے ہوئے سونے کے ٹکڑے کو اٹھالیتا ہے۔
اس کے برعکس جب ذمہ دار لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ افراد کو اس اعتبار سے دیکھیں کہ وہ میرا رشتہ دار ہے یا اجنبی ہے ۔ وہ میری تعریف کرتا ہے یا میرا ناقدہے۔ وہ میرے گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا گروہ سے باہر کا آدمی ہے۔وہ ہر معاملہ میں مجھ سے اتفاق کرتا ہے یا کسی معاملہ میں اس کی رائے مجھ سے مختلف ہے۔
کسی قوم یا کسی حکومتی نظام میں اول الذکر صفا ت والے اشخاص کا اختیار کے مناصب پر ہونا اس قوم یا حکومت کی ترقی کی ضمانت ہے۔ اس کے برعکس جس قوم یا حکومتی نظام میں ثانی الذکر صفت والے اشخاص اختیار کے مناصب پر قابض ہوجائیں اس کو کوئی چیز تباہی اور بربادی سے بچانے والی نہیں!
لہٰذا آج کا پیغام سیرت یہ ہوا کہ اول تو اپنے اندر وہ گرُ پیدا کریں کہ جس سے معاشرہ میں آپ کی قدر دانی ہو۔ دوسرے نمبر پر ارباب اختیار اوران لوگوں کو جو کسی جگہ کے انچارج ومسﺅل ہوں، ان کے لیے یہ درس ہے کہ رجال کار کے چناﺅ میں ان کی ذاتی صفات وصلاحیتوں کو دیکھ کر ان کا تقرر کریں گے تو آپ کا ادارہ پھل پھول سکے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں