سستی بجلی سے استفادہ، برآمدات میں اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے
شیئر کریں
اخباری اطلاعا ت کے مطابق پاکستان بین الاقوامی طور پر تیار کیے گئے اعلیٰ معیار کے شمسی میپس سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیاہے۔عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ان شمسی میپس سے پاکستان اپنے قابل تجدید توانائی کے وسائل سے مزید مو¿ثر طریقے سے استفادہ کرسکے گا۔پاکستان کے نئے ’سولر میپس‘ کی گزشتہ روز آلٹرنیٹو انرجی ڈیولمپنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی) اور عالمی بینک کی جانب سے اسلام آباد میں منعقد کردہ ورکشاپ میں نقاب کشائی کی گئی۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان اب ترقی یافتہ ممالک پر مشتمل اس چھوٹے گروپ کا حصہ بن گیا ہے جنہیں پائیدار اور مقامی توانائی کے سستے ذرائع تک رسائی حاصل ہے۔عالمی بینک کے پاکستان میں قائم مقام ڈائریکٹر انتھونی کوسٹ نے اس تقریب میں بتایاکہ ’گزشتہ چند سال کے دوران شمسی توانائی کی تیزی سے کم ہوتی لاگت کے بعد پاکستان کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ سبسڈیز دیے بغیر شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھا سکتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے عالمی بینک پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مدد کے لیے تیار ہے، اس کے علاوہ ہم پہلے ہی ہائیڈرو پاور سیکٹر میں اصلاحات کی تیاری اور ٹرانسمیشن گرڈ کی مضبوطی کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں، جبکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم توانائی کے اس صاف اور محفوظ ذریعہ کا احساس کرتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔‘اے ای ڈی بی کے چیف ایگزیکٹو افسر امجد علی اعوان نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ’نئے سولر میپس شمسی توانائی سے فائدہ اٹھانے میں یقینی طور پر بہتری لائیں گے۔‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کی لامحدود صلاحیت موجود ہے لیکن اب تک ہم صرف 100 میگاواٹ کے شمسی توانائی کے گرڈ لگانے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔2012 سے ونڈ پاور یعنی ہوا سے بجلی حاصل کرنے کی تجاویز کوپزیرائی ملنا شروع ہوئی اور اب تک 477 میگاواٹ کے پراجیکٹس کی منظوری دی جاچکی ہے جس سے قابل تجدید توانائی کی قابل عمل مارکیٹ کاپتہ چلتا ہے۔
نیپرا نے گزشتہ دنوں 30جون 2018 تک کیلئے شمسی بجلی کے نئے ٹیرف کااعلان کیا تھا اور اس تجارت میں موجود وسعت کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن نے پاکستان میںقابل تجدید توانائی خاص طورپر شمسی توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کیلئے گائیڈ لائن بھی جاری کردی تھی۔
بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کی جاری کردہ ہینڈبک ” پاکستان میں سولر ڈیولپرز گائیڈ برائے سرمایہ کاری “ میں شمسی توانائی کے پراجیکٹس پر کام کرنے والوں اور اس کے ڈیولپرز کیلئے ترقیاتی طریقہ کار اور اس حوالے سے ان پر عاید ہونے والی قانونی اورریگولیٹری میکانزم کے حوالے سے مفید معلومات درج ہیں۔اس میں تیاری ،معاہدے اس کی منظوری اور اس کی تکمیل تک کے مراحل کے سلسلے میں ضروریات کی وضاحت کی گئی ہے۔
پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی مستحکم سپورٹ سب سے پہلے 2006 میں سامنے آئی جب حکومت نے قابل تجدید توانائی کی ترقی اور اس کی تیاری کی پالیسی کااعلان کیا۔جس کے تحت ہوا سے توانائی ،شمسی توانائی اور50-50 میگاواٹ تک کے چھوٹے پن بجلی کے منصوبوں کی اجازت دینا اور اس پر عملدرآمد کیاجاناتھا۔ اگرچہ پہلے اس شعبے میں پیش رفت بہت سست رہی لیکن گزشتہ 5سال کے دوران خاص طورپر ہوا ،پن بجلی اور شمسی توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔لیکن مئی 2015 تک پنجاب میں 100 میگاواٹ کے ایک گرڈ نے کام شروع کیاتھا۔
متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ نے دعویٰ کیاہے کہ 1111.4 میگاواٹ کے 35 منصوبے بورڈ کے تحت زیر تکمیل ہیں۔ جبکہ 10 ڈیولپرز کے ٹیرف کی منظوری دی جاچکی ہے اور ان میں سے 100-100 میگاواٹ کے 3 پراجیکٹس نے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط بھی کردئے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کی جاری کردہ گائیڈ میں ان پراجیکٹس کی تکمیل کی راہ میں پیش آنے والے متوقع چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑے اوراہم مسائل کے بارے میں سفارشات بھی درج ہیں۔گائیڈ لائن میں ٹائم لائن اورپالیسیوں کی غیریقینی صورتحال کاحوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاہے کہ پاکستان میں اب تک نجی شعبے کاکوئی شمسی آئی پی پی اب تک مکمل نہیں ہوسکاہے،خیال کیاجاتاہے کہ 2014 اور2015 کے دوران جن پراجیکٹس کیلئے ٹیرف کی منظوری دی گئی تھی وہ سینٹرل پاورپرچیز ایجنسی نے ٹیرف میں کمی کرانے کے انتظار میں روک رکھی ہے۔اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کودھچکہ لگا ہے۔نیپرا نے یہ واضح کردیا ہے کہ سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی کو اس کے مقرر کردہ ٹیرف کو تسلیم کرناہوگا جبکہ ڈیولپرز اپنے پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے مقررہ مدت میں مسلسل توسیع کررہاہے۔جبکہ یہ شکایات بھی گزشتہ دنوں سامنے آئی تھیں کہ سرکاری ادارے اس حوالے سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔مزید یہ کہ اے ای ڈی بی اورصوبائی اداروں کی جانب سے جاری کردہ لیٹر آف انٹینٹ 2015 سے نئے ٹیرف کے سامنے آنے کی امیدپر معلق ہیں ۔
موجودہ صورت حال میں جب ملک میں مہنگی بجلی ہماری برآمدات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور بجلی مہنگی ہونے کے سبب پاکستانی برآمد کنند گان کو بیرونی منڈیوں میں دیگر ممالک کی مصنوعات سے مقابلہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہاہے حکومت کو فوری طورپر بجلی کے ایسے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جن کے ذریعہ بھاری سرمایہ کاری اور تیل وگیس پر قیمتی زرمبالہ خرچ کیے بغیر کم قیمت پر بجلی حاصل کی جاسکے ۔
اس حوالے پاکستان میںسورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی حاصل کرنے کے آپشن موجود ہیں ،پاکستان کے جغرافیائی محل وقو ع کے پیش نظر توانائی کے حصول کے یہ دونوں ذرائع ملک کو انتہائی کم قیمت پر بلا تعطل توانائی کی فراہمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وسیع وعریض میدانی اور پہاڑی علاقوں سے نوازا ہے جہاں کم وبیش پورے سال سورج چمکتارہتاہے اورقدرتی ہوا کی بھی کمی نہیں ہوتی اس لیے اب حکومت کو توانائی کے مہنگے ذرائع کے بجائے توانائی کے حصول کے ان قدرتی ذرائع پر توجہ دینی چاہئے اور اب جبکہ پاکستان بین الاقوامی طور پر تیار کیے گئے اعلیٰ معیار کے شمسی میپس سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیاہے،اسے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اوراپنے توانائی کے منصوبوں میں شمسی توانائی اورہوا سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں کواولیت او رترجیح دینی چاہئے۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس اہم مسئلے پر غور کریں گے اور بجلی کے قابل تجدید اور سستے ذرائع سے استفادہ کرنے کے منصوبے جلد شروع کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کریں گے۔