جادئی ملاکا اسٹک اور آرمی چیف کا منصب!
شیئر کریں
ملاکا اسٹک وہ کماند اسٹک ہے جو مسلح افواج کے نئے سربراہ کو بطور امانت رخصت ہونے والا آرمی چیف سپرد کرتا ہے۔ انگریزوں کے دور سے آرمی کمان کو چھڑی حوالے کرنے کا عمل فوجی روایت کا حصہ رہا ہے۔ جنرل سید عاصم منیر نے آج فوجی قیادت کی تبدیلی کی تقریب میں آنے سے پہلے ہی فور اسٹار جنرل کے شولڈر رینکس اور کالر میڈل لگا کر پاکستان آرمی کے 17 ویں چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ سنبھالا۔بعد ازاں تقریب میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک پروقار عسکری تقریب میں آرمی کمان کی علامت ’’ملاکا اسٹک‘‘ جنرل سید عاصم منیر کو تفویض کی۔ آرمی کمان کی اسٹک کی سپردگی دراصل ایک علامتی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ علامتی عمل دراصل آرمی چیف کے عہدے اور اس سے منسلک ذمہ داریوں سے متعلق ہے جو پرانا افسر نئے آنے والے افسر کو یہ چھڑی سونپ کر رخصت ہوجاتا ہے۔
ملاکا اسٹک سنگاپور کے ایک جزیرے ملاکا کی ایک خاص کین سے تیار کی جاتی ہے۔
ملاکا رتن کی ایک قسم ہے جو انڈونیشیا میں سماٹرا کے ساحل پر بھی پائی جاتی ہے۔ رتن کے درخت میں لمبے، پتلے تنے ہوتے ہیں جو واکنگ اسٹکس بنانے کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ اگر اس چھڑی کی بناوٹ پر غور کریں تو اس میں2، 2 انچ کے فاصلے پر گانٹھ ہوتی ہےجو دیکھنے میں بانس کی لکڑی کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں پتلی ہوتی ہے۔ یہ وزن میں بہت ہلکی لیکن کافی مضبوط ہوتی ہے اور اس میں کوئی دو نمونے ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی افواج کے سربراہان اسے کمان اسٹک کے طور پر زیر بازو اور کبھی ہاتھ میں اپنے ایام فرائض میں رکھتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی اسٹک نہیں ہوتی، اس کی قیمت 10 ہزار روپے سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ فوج میں اس چھڑی کو کمانڈ کی علامت سمجھا جاتا ہے، نئے آرمی چیف کو ملاکا چھڑی دینے کی روایت برطانوی دور سے چلی آ رہی ہے۔ ملاکا کی چھڑی سری لنکا، ہندوستان، برطانیہ سمیت کئی ممالک میں فوجی وردیوں کا حصہ ہے۔ قبل ازیں سبک دوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی میں ایک تقریب میں کمانڈ اسٹک اپنے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی تھی۔ جنرل راحیل شریف کو 2013ء میں اس وقت کے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاکا چھڑی ملی تھی جب کہ یہ مشرف ہی تھے جنہوں نے 2007ء میں چارج چھوڑنے کے بعد جنرل کیانی کو چھڑی سونپی تھی۔ ملاکا اسٹک محض فوج میں کمانڈ کی علامت ہے، چھڑی ٹوٹ جانے کی صورت میں (جو ابھی تک کبھی نہیں ٹوٹی) فوجی سربراہ کے اختیارات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اس پورے عمل کو ایک عسکری روایت کے طور پر یادگار بنایا جاتا ہے۔ منصب کے اعتبار سے طاقت ور آرمی چیف کے ہاتھوں میں یہ چھڑی کتنی ہی علامتی ہو، مگر اصل میں یہ اختیارات کی جادئی چھڑی کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔