کے الیکٹرک کی تیسری بار فروخت کے معاہدے کومنظرعام پرلایاجائے ،حافظ نعیم الرحمن
شیئر کریں
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی کے شہریوں کو بتایا جائے کہ ابراج گروپ کے ویوالیہ ہونے کے بعد اس وقت کے الیکٹرک کے مالکان کون ہیں اور اس کو تیسری بار پراسرار طریقے سے برٹش ورجن آئی لینڈ کی سیج وینچر گروپ لمیٹیڈ کو کن داموں او ر شرائط پر فروخت کیاگیا؟۔ وفاقی حکومت بھی کے الیکٹرک کے 26 فیصد شئیرز کی مالک ہے لہذا کے الیکٹرک کی تیسری بار فروخت کے معاہدے کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ کے الیکٹرک پر واجب الادا قومی ادارے سوئی سدرن گیس، این ٹی ڈی سی اور کراچی کے شہریوں کو کلا بیک کے 300 ارب روپے سے زائد رقم کب واپس دلوائی جائے گی؟حافظ نعیم الرحمن نے کے الیکٹرک کے مہنگی ترین بجلی تیار کرنے اور بدترین لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کے الیکٹرک پاور سسٹم پر ایک بدنما داغ ہے ،یہ ادارہ سستی بجلی خرید کر مہنگے داموں فروخت کرکے خود منافع کما رہا ہے لیکن اسکی بدترین کارکردگی کا خمیازہ کراچی کے شہری بھاری بھرکم بجلی کے بل اور بدترین لوڈشیڈنگ کے عذاب کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ کے الیکٹرک بجلی کے بل کراچی کے شہریوں کی قوت استعداد سے باہر ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب کے الیکٹرک پرائیوٹ کمپنی ہونے کے باوجود وفاقی حکومت سے اربوں روپے سبسڈی لے کر قومی خزانے پر بھی بوجھ بن گئی ہے۔ نجکاری کے بعد 17 سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ کمپنی ابھی تک بجلی کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہوسکی۔نیپرا، پاور ڈویژن اور وفاقی حکومت میں شامل ساری سیاسی جماعتیں کمپنی کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ادارے کو مسلسل تحفظ فراہم کررہی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ نیپرا کے الیکٹرک کی بدترین کارکردگی پر ریمارکس دیتا اور رپورٹس تو شائع کرتا ہے مگر اس کے خلاف کاروائی نہیں کرتاجبکہ خود نیپرا کی رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک کی تیار کردہ بجلی ملک کی باقی سرکاری و دیگر بجلی کمپنیوں سے 300 فیصد زیادہ مہنگی ہے۔ کے الیکٹرک کی پیدا شدہ بجلی کی اوسط قیمت 37.74 فی یونٹ جبکہ ملک کی باقی بجلی کمپنیوں کی اوسط قیمت 10 روپے فی یونٹ ہے ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے 32سال پرانے پلانٹس میںسستا فیول استعمال کرنے کے باوجود مہنگی ترین بجلی بنا کر فیول ایڈجسٹمنٹ کا سارا بوجھ کراچی کے صارفین پر ڈال دیتا ہے جسکی ایک مثال کے الیکٹرک کا 900 میگاواٹ بن قاسم پلانٹ تھری کا گیس سے چلنے والاسستی بجلی کے پلانٹ کاپیداواری عمل دسمبر 2019 میںشروع ہوجانا چاہئے تھا جو آج تک نہیں ہوسکا،بن قاسم تھری پلانٹ کے چلنے سے کراچی کے شہریوں کو اربوں روپے کے اضافی فیول ایڈجسٹمنٹ کے بوجھ سے بچایا جاسکتا تھا۔ مگر نیپرا کے الیکٹرک کی نااہلی کی سزاکراچی کے صارفین کو دے رہا ہے۔ امیرجماعت اسلامی نے مزیدکہاکہ کے الیکٹرک کا ٹرانسمیشن سسٹم میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی وجہ سے این ٹی ڈی سی سسٹم میں موجود 4000 میگا واٹ اضافی اور سستی بجلی ہونے کے باوجود یہ ادارہ اسے حاصل کرکے کراچی کے شہریوں کو فراہم کرنے میں ناکام ہے جسکی وجہ سے کراچی کے شہریوں کو مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اس وقت تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ کمپنی بجلی چوری کا بہانہ بنا کر کراچی کے مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ کررہا ہے جبکہ نیپرا قوانین کے مطابق کمپنی اس بنیاد پر لوڈشیڈنگ نہیں کرسکتی کیوں کہ جو صارفین اپنا بل وقت پر ادا کرتے ہیں انہیں بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے جبکہ بجلی چوری یا بجلی کا بل ادا نہ کرنے والے صارفین کی بجلی منقطع تو کی جاسکتی ہے مگر اس بنیاد پر پورے علاقے میں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاسکتی ،اس لیے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ نیپرا نے اپنے ہی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ایک طرف نیپرا ملٹی ائیر ٹیرف کو بنیاد بنا کر کے الیکٹرک کو ماہانہ فیول اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اربوں روپے تو دلواتا ہے دوسری طرف اسی ملٹی ائیر ٹیرف کے مطابق کلا بیک کی مد میں کراچی کے صارفین کو50ارب روپے سے زائد رقم بلوںمیں کمی کی صورت میں واپسی کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کرتا۔