میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقابلہ ہے زوروں پر ‘امریکا کے دفاعی بجٹ میں 10،چین میں 7فیصد اضافہ

مقابلہ ہے زوروں پر ‘امریکا کے دفاعی بجٹ میں 10،چین میں 7فیصد اضافہ

ویب ڈیسک
منگل, ۷ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭چین کی صلاحیتوں کے مستحکم ہونے سے خطے میں امن اور استحکام بڑھے گا اور یہ خطے کے مفاد میں ہے، اس کے خلاف نہیں،ترجمان کا دعویٰ
٭حالیہ فوجی مشق کی ایک وڈیو گردش میں ہے جس میں چینی فوج کے اہلکار جدید بیلسٹک میزائل کو آپریٹ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں
٭سب سے بڑا خلائی طیارہ بنانے کی چینی تیاریوںکی بھی خبریں ہے، چین اینٹی سیٹلائٹ میزائل کے تجربات بھی کر رہا ہے،مخالف ممالک میں گہری تشویش
شہلا حیات نقوی
امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملکی دفاعی بجٹ میں اضافے کے فیصلے کے چند روز بعد ہی چین نے بھی رواں برس کے دوران دفاعی اخراجات میں 7 فیصد اضافے کا اعلان کردیا۔چین کی جانب سے اضافے کا اعلان بیجنگ میں سالانہ نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے انعقاد سے قبل سامنے آیا۔دفاعی بجٹ میں 7 فیصد اضافے کے باوجود بھی دفاع کے شعبے میں چین کے اعلانیہ اخراجات امریکا کی نسبت کم رہیں گے۔خیال رہے کہ چین کی جانب سے دفاعی اخراجات کے اعلان سے چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ کئی سال میں چین نے اپنی معیشت میںپھیلاﺅ کے ساتھ تیزی سے اپنی فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے۔تاہم اس کے باوجود چین کا دفاعی بجٹ امریکا کے بجٹ سے بہت کم ہے۔یہ مسلسل دوسرا سال ہے جس میں چین کے دفاعی بجٹ میں اضافہ مجموعی طور پر دہرا ہندسے عبور نہیں کر پایا ہے۔حکومتی ترجمان فو ینگ کا کہنا ہے کہ چین رواں برس اپنے مجموعی جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ تین فیصد دفاع پر خرچ کرے گا ۔ انھوں نے بتایا کہ چین کی فوج کی توجہ دفاع اور ایشیا میں استحکام کے لیے فوج کی تشکیل پر مرکوز ہے۔’ہم پرامن طور پر مسائل کے حل کی ترویج کر رہے ہیں، ساتھ ہی ہمیں اپنی سالمیت اور دلچسپیوں کے لیے بھی صلاحیت کی ضرورت ہے۔‘حکومتی ترجمان فو ینگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کی صلاحیتوں کے مستحکم ہونے سے خطے میں امن اور استحکام بڑھے گا اور یہ خطے کے مفاد میں ہے، اس کے خلاف نہیں۔
خطے میں جہاں سرحدی تنازعات شدت اختیار کر رہے ہیں وہاں چین کے دفاعی اخراجات میں اضافے اور بحری قوت کو مضبوط بنانا مقابلے کے ممالک میں تشویش کا باعث بن رہاہے۔جنوبی بحیرہ چین میں چین نے اپنی سمندری حدود سے باہر مصنوعی جزیرے بنائے ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ چند سال میں معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ چین نے اپنے ہتھیاروں کو بھی جدید کیا ہے۔چینی فوج نے گزشتہ ماہ بھی فوجی مشقوں میں جدید ڈی ایف 16 میڈیم رینج بیلسٹک میزائل کے استعمال کی ویڈیو جاری کی تھی۔
چینی اخبار ‘پیپلز ڈیلی’ کی رپورٹ کے مطابق فوجی مشق کی اس وڈیو میں چینی فوج کے اہلکار جدید بیلسٹک میزائل کو آپریٹ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔چین کے ریٹائرڈ میجر جنرل اور موجودہ اسٹریٹجی ریسرچر شو گوانگ یو کا اخبار کو بتانا تھا کہ یہ میزائل چین کے ہتھیاروں کی کھیپ میں موجود خلا کو پ±ر کرتا ہے جبکہ اس کی مار کرنے کی صلاحیت ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ہے۔چینی اخبار اس حوالے سے اسلحے کے ماہر کا تجزیہ بھی شامل کرتا ہے جن کے مطابق ڈی ایف 16 میزائل تقریباً 500 کلو گرام تک دھماکا خیز مواد ساتھ لے کر جاسکتا ہے اور اپنی حرکت پذیری کی وجہ سے دشمن کے دفاعی نظام کو توڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس وڈیو میں دو اقسام کے ڈی ایف 16 میزائل دکھائے گئے ہیں، جن میں سے ایک دیکھنے میں گولی کی شکل کا ہے، اس میزائل کو اصل ڈی ایف 16 قرار دیا جارہا ہے جبکہ دوسرا میزائل اس کا جدید ورژن ہے جو حرکت پذیر میزائل ہے اور اس میں متعدد پَر بھی نصب ہیں۔ وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لانچ وہیکلز بیلکسٹک میزائل کو لے کر جارہی ہیں جبکہ راکٹ فورس میزائل بریگیڈ کے اہلکار بھی اس میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ یہ تربیتی مشقیں چینی نئے سال کے موقع پر منعقد کی گئی تھیں۔مشقوں کے دوران فوجی اہلکاروں کو مختلف صورتحال سے نمٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جن میں ممکنہ کیمیائی اور حیاتیاتی حملے، سیٹلائٹ نگرانی اور الیکٹرونک جیمنگ وغیرہ سے نمٹنا شامل ہیں۔وڈیو میں متعدد فوجیوں کو مشقیں کرتے بھی دیکھا جاسکتا ہے تاہم ویڈیو میں کسی میزائل کو باقاعدہ لانچ ہوتے نہیں دکھایا گیا۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھی چینی اخبار نے ایک لانگ رینج میزائل کی تصاویر شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین فضا سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والے لانگ رینج میزائل کا تجربہ کرسکتا ہے۔چینی صدر شی جن پنگ اسٹیلتھ جیٹ اور طیارہ بردار ٹیکنالوجی سمیت فوجی طاقت میں جدت اور وسعت کے پروگرام کی نگرانی کر رہے ہیں، جب کہ چین اینٹی سیٹلائٹ میزائل کے تجربات بھی کر رہا ہے۔چینی فوجی مشقوں میں جدید بیلسٹک میزائل کی رونمائی بھی کی گئی تھی ۔
واضح رہے کہ یہ دوسرا سال ہے کہ جب چین کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اعلانیہ اضافے کی شرح 10 فیصد سے کم رہی ہے۔چین کی حکومتی ترجمان فو ینگ کے مطابق 2017 میں ملک کی متوقع جی ڈی پی میں سے 1.3 فیصد دفاع پر خرچ کیا جائے گا۔ان کا صحافیوں کو بتانا تھا کہ دفاع کے شعبے میں چین کے اخراجات کا دارومدار خطے میں امریکی سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ چین نے ہدف کو نشانہ بنانے والے طویل رینج میزائل کی تیاری بھی شروع کردی ہے،فو ینگ کے مطابق ‘علاقائی مسائل کے حل کے لیے پرامن مذاکرات اور مشاورت کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی سالمیت اور مفاد کو محفوظ بنانے کی صلاحیت کی بھی ضرورت ہے’۔ان کا کہنا تھا ‘خاص طورپر ہمیں بیرونی عناصر کی جانب سے مسائل میں مداخلت کے خلاف تحفظ پیدا کرنا ہے’۔ترجمان نے ‘مداخلت’ کے حوالے سے وضاحت تو نہیں کی تاہم بیجنگ کی جانب سے جنوبی اور مشرقی سمندر کے حوالے سے کیے گئے دعوے خطے میں بے یقینی اور واشنگٹن کی جانب سے تنقید کا سبب بنے ہیں۔چین نے ‘ففتھ جنریشن’ لڑاکا طیارے کا تجربہ بھی کیا ہے تاہم فو ینگ کا کہنا تھا کہ ‘چین نے کبھی کسی بھی ملک کو نقصان نہیں پہنچایا’۔حالیہ رپورٹس کے مطابق بیجنگ کی جانب سے جنوبی سمندروں میں موجود مصنوعی جزیروں پر حربی سرگرمیوں نے واشنگٹن کی تشویش میں خاصا اضافہ کیا ہے۔ان سمندروں پر چین کے اختیار کے دعوو¿ں کو ملائیشیا، فلپائن، ویت نام اور تائیوان نے بھی چیلنج کیا ہے۔یہ خبر بھی ہے کہ چین میں سب سے بڑے خلائی طیارے کی تیاری کا منصوبہ تیار کرلیاگیا ہے۔
چین کے اخبار’ڈیلی چائنا‘ کی رپورٹ کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی نے حال ہی میں مشقوں کی تصاویر جاری کی ہیں، اس دوران ایک جے-11 بی فائٹر طیارے کے ساتھ نامعلوم میزائل کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں۔چینی اخبار نے میزائل اور لڑاکا طیارے کی تصویر بھی جاری کی ہے۔ اخبار کے مطابق ایئرفورس ریسرچر فو قوانشاو¿ نے چینی اخبار کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ میزائل کو دور تک نہایت اہم ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔اس میزائل میں چین کی حالیہ میزائل قوت سے زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں، چین کے پاس اس وقت 100 کلو میٹر (62 میل) سے بھی کم تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل ہیں۔فوقوانشاو¿ کے مطابق چین کے پاس کم ہدف والے میزائل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ لڑاکا جیٹ کو اس اعلیٰ صلاحیت کے حامل لانگ رینج میزائل کے ساتھ جوڑ کر نہایت اہم ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجا جائے،اس میزائل کی نظروں سے دشمن کے جہاز نہیں بچ سکتے۔انہوں نے بتایا کہ اس میزائل کی حقیقی رینج 400 کلو میٹر تک ہے، جو مغربی ایئرفورس کے زیر استعمال میزائلز سے زیادہ ہے، یہ میزائل زمین سے فضا میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اگرچہ چینی ایئرفورس نے اس میزائل پر تاحال تبصرہ نہیں کیاہے، تاہم مقامی میڈیا اس حوالے سے عہدیداروں کی تصدیق کے بعد وقفے وقفے سے خبریں نشر کر رہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں