پاکستان میں ہر 2 گھنٹے میں ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہونے لگی
شیئر کریں
پاکستان میں ہر 2 گھنٹے میں ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ پولیس، محکمہ داخلہ ، وزارت انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 5 برس (2017سے 2021) کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر خواتین کی آبروریزی کے 21 ہزار 900 اوسطا یومیہ 12خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔2017 کے دوران ملک بھر میں خواتین پر جنسی تشدد کے 3328، 2018 میں 4456 ، 2019 میں 4573، 2020 میں 4478 جب کہ 2021 میں 5169 واقعات سامنے آئے۔2022 کے ابتدائی 4 ماہ کا ڈیٹا دستایب نہیں تاہم مئی سے اگست کے دوران خواتین کی آبروریزی کے 305واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 18 ہزار 848 واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے جب کہ سزا کی شرح صفر اعشاریہ 2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔پاکستان کی 44 عدالتوں میں خواتین پر جنسی تشدد کے 1301 مقدمات مکمل کیے گئے۔خواتین سے زیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح 0.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، پانچ سال میں پولیس نے 2856 مقدمات کے چالان پیش کیے اور صرف 4 فیصد مقدمات کے فیصلے ہوئے۔گزشتہ 5 برس کے دوران اجتماعی زیادتی کے مجموعی طور پر 908 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 2018 میں 289 ، 2019 میں 260، 2020 میں 246 اور 2021 کے دوران 113واقعات سامنے آئے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی جانب سے خواتین کے ساتھ رکھے جانے والے جنسی تعصب کے حوالے سے 2020 میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کو 75ممالک کی فہرست میں سب پہلے نمبر پر رکھا گیا تھا۔اسی طرح خواتین کی سیاسی خودمختاری، اقتصادی معاملات میں شمولیت ، تعلیم کے حصول اور صحت کے بارے میں کام کرنے والی ورلڈ اکنامک فورمز جنڈر گیپ رپورٹ نے 156ممالک کی فہرست میں پاکستان 153واں نمبر دیا تھا۔ گزشتہ سال ستمبر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے انسداد ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹریل)بل 2021 کی منظوری دی تھی جس کے تحت ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دینے کا قانون منظور کیا گیا تھا۔2021 میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے عادی مجرم کو کیمیائی طریقے نامرد بنانے کے بل کی بھی منظوری دی گئی تھی۔ فوجداری(ترمیمی) بل 2021 کے ذریعے تعزیرات پاکستان 1860 اور فوجداری ضابطہ 1898 میں ترمیم کی گئی تھی تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ریپ کے مجرم کو نامرد بنانے کے قانون کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔