مس مینجمنٹ
شیئر کریں
دوستو،ملک سیلاب میں ڈوباہوا ہے اور بحث یہ چل رہی ہے کہ ۔۔سیلاب عذاب ہے یا ’’مس منیجمنٹ‘‘ ۔۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب منگول بغداد پر چڑھائی کرنے کے لیے بہت بڑے لشکر کے ساتھ آرہے تھے تو بغداد کے گلی کوچوں میں بحث ہورہی تھی کہ ’’کوا حلال ہے یا حرام‘‘؟؟۔۔ سیلاب کو مس مینجمنٹ کہنے والوں کا موقف ہے کہ سیلاب اگر عذاب ہوتا تو تو غریب کی جھونپڑیوں کے بجائے ، رائے ونڈ، بنی گالہ، لال حویلی، بلاول ہاؤس، ڈی ایچ اے کو ڈبو چکا ہوتا۔۔ان کا کہنا ہے کہ ہر سال یہی ہوتا ہے کہ بے حس حکومتیں اپنی نالائقی کو اللہ کی ناراضی قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ بے شک اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ لیکن ان بے غیرتوں کا گریبان بھی پکڑو اور جوتے مارو انھیں، جن کی بے حسی سے یہ سب ہوا۔۔
المیہ یہ بھی تھا کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا، ہمارے ٹی وی چینلز اپنی خبروں میں سیاست کی گرماگرمی دکھارہے تھے، شہباز گل پر تشدد کی بات ہورہی تھی، عمران خان کے جلسے ڈسکس ہورہے تھے، گرفتاری کے منصوبے سامنے لائے جارہے تھے۔۔ پھر جب سوشل میڈیا پر عوام نے آئینہ دکھانا شروع کیا تو راتوں رات کایا پلٹی اور سارے چینلز سیلاب کی خبریں دینے لگے۔۔ لیکن اب بھی معاملہ ایسا ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ زیریں سندھ میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے ،عوام ابھی تک اس سے آگاہ نہیں ہوسکے۔اب جب کہ پورے ملک میں سیلاب، سیلاب ہورہا ہے تو کراچی میں ہر دس قدم کے فاصلے پر امدادی کیمپ لگے نظر آرہے ہیں۔۔دوہزار پانچ کاجب زلزلہ آیاتھا، کراچی اس وقت بھی امداد میں پیش پیش تھا، کراچی آج بھی سب سے آگے ہے۔ لیکن جب کراچی پر برا وقت آتا ہے تو کوئی کراچی کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔۔ چندوں کی اپیلیں ہورہی ہیں، امدادی کیمپوں میں غذائی اجناس اور کپڑے اکٹھے کئے جارہے ہیں۔۔ ان میں کچھ بدنیت افراد بھی اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ مانگنے والوں کی تین اقسام ہوتی ہیں۔۔ایک بھکاری وہ جو گلی کوچوں میں صدائیں لگا کر مانگتا ہے۔ اس قسم کے بھکاری کی وضاحت ضروری نہیں کیونکہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر شخص کا پالا روز ان سے پڑتا رہتا ہے۔ دوسری قسم ان حضرات کی ہے جو یتیم اور لاوارث بچوں کے نام پر لوگوں کو ایموشنل بلیک میل کر کے چندہ جمع کرتے ہیں۔ ان میں مہارت مذہبی حضرات کی ہے۔ بس ایک مدرسہ کھول لو اور پھر پیسہ ہی پیسہ۔ مولانا کے 12 بچے کھانے والے، تنخواہ 5 سے 6 ہزار۔۔ مولانا کا لائف اسٹائل شاندار، بڑا گھر، کروڑوں کی گاڑیاں، آنیاں جایناں۔ ہٹو بچو۔! ظاہر ہے یہ سب 5، 6 ہزار میں تو نہیں ہو سکتا۔ تو پھر بھائی یہ چندے کی چکاچوند سمجھ لیں۔۔تیسری قسم گداگری کی سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس ہیں۔ یہ بھکاری زرا مشہور لوگ ہی بنتے ہیں ہی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے کئی کھلاڑی، اداکار، مراثی گانے بجانے والے جب دیکھتے ہیں کی ان کی آمدن کم ہو رہی ہے یا ان کا دھندہ تھوڑا ڈھیلا پڑ رہا ہے تو وہ پھر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ادارہ بنالیتے ہیں۔ اس سے ان کا بغیر پیسے لگائے اور بغیر محنت کئے کاروبار چل پڑتا ہے۔ مانگو چندہ رہو خوش و خرم۔ ہو سکتا ہے آپ اس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوں مگر ہم نے کروڑوں کا چندہ لینے والے فرشتہ صفت ،درویش صفت انسان مولانا عبدالستار ایدھی صاحب کا بھی لائف اسٹائل دیکھا تھا اور دوسری طرف مراثیوں، کھلاڑیوں کے ادارے اور لائف اسٹائل دیکھ لیں۔ واضع ہو جائے گا کہ لوگوں کی فلاح کے لیے کس نے زندگی وقف کی اور کون بھکاری بن کر اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ پنجاب کے دیہات میں ڈیرے دار لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کے امام کے لیے دوسروں کی کمائی کو حرام قرار دینا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کوئی کاروبار نہیں کرتا، اسے کسی کو رشوت دینی پڑتی ہے نہ ٹیکس چوری کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ اسے چندے اور خیرات کی صورت میں جو کچھ ملتا ہے، وہ احتساب کے دائرے سے باہر ہوتاہے، اس لیے وہ بے دھڑک سب کو رگیدتا رہتا ہے۔
ایک کنجوس کے گھر کے دروازے کی بیل بجی، اس نے آواز لگائی، بیٹا دروازے پر کون ہے؟ بیٹے نے جواب دیا۔۔ سوئمنگ پول کے لیے چندہ مانگنے والے آئے ہیں۔۔کنجوس نے پوچھا۔۔ کیا دینے لگے ہو۔۔آگے بیٹا بھی تو دیکھیں کس کا تھا، برجستہ بولا۔۔ ایک گلاس پانی۔۔کنجوس بھی آخر باپ تھا۔کہنے لگا۔۔ ساتھ والوں کے نلکے سے دینا۔۔مشتاق یوسفی لیجنڈ مزاح نگار ہیں،وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔بے پناہ مصروفیات اور گھر میں دیر سے آنے کی عادت سے تنگ آکر بیگم صاحبہ نے دل بہلانے اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے مرغیاں پال لیں۔ چنانچہ ہمیں مرغیوں کی کڑ کڑ کے علاوہ مفت انڈے بھی ملنے لگے۔۔ آہستہ آہستہ ہم مرغیوں کے کمروں میں گھس آنے اور گند ڈالنے سے تنگ آنے لگے۔ چنانچہ ہم نے نرم انداز سے بیگم صاحبہ سے احتجاج اور یہ مطالبہ کرنا شروع کیا کہ وہ مرغیوں سے نجات حاصل کریں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ گھر میں پہروں اکیلی کیا کریں۔ ایک دن ہمیں پبلشر کا نوٹس ملا کہ کتاب پریس میں جا چکی ہے اس لیے اس کا آخری حصہ بہرحال آج ہی مکمل کرکے صبح صبح بھجوائیں۔ چنانچہ میں رات بھر میز پر بیٹھ کر سوچتا اور لکھتا رہا۔ صبح تک مسودہ مکمل کیا۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی سوچا ،چند لمحے تازہ ہوا کھا لوں پھر واپس آکر نظرثانی کرتا ہوں۔۔ کچھ دیر بارش کا نظارہ کرنے اور تازہ ہوا کھانے کے بعد کمرے میں لوٹا تو دیکھتا ہوں کہ مرغیوں کے بچوں نے ہر طرف اپنے گندے پنجوں سے کرسی میز اور میرے مسودے کا بیڑا غرق کر دیا ہے بلکہ کاغذات پر سیاہی کی دوات بھی انڈیل دی ہے۔ یوں اپنی محنت کو غارت دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے جلال میں آکر بیگم سے کہا کہ۔۔ آج سے اس گھر میں یا مرغیاں رہیں گی یا میں۔۔ میری بات سن کر بیگم رونے لگیں۔ ان کے آنسو دیکھ کر میری طبیعت میں نرمی آگئی اور میں نے کہا کہ۔۔ آپ روتی کیوں ہیں اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں۔ میری بات سن کر بیگم صاحبہ بولیں ۔۔میں ر و اس بات پر رہی ہوں کہ اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے؟
بات ہورہی تھی سیلاب کی اور سیلاب متاثرین کی امداد کی۔۔ایک فقیر بھرے بازار میں سر جھکائے جائے نماز پر بیٹھا دعاؤں میں مشغول تھا۔ کسی گزرنے والے نے پوچھا ۔۔بابا کیا کر رہے ہو؟؟۔۔ فقیر بولا انسانوں اور اللہ کا معاملہ طے کرا رہا ہوں، اللہ تو تیار ہے مگر انسانوں کے پاس اس کی طرف لوٹنے اور عبادت کے لئے وقت ہی نہیں ہے، کیا کروں کیسے یہ طے ہوگا۔۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اُسی فقیر کو جائے نماز بچھائے قبرستان میں دیکھا۔۔ گزرنے والے نے پوچھا کہ اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو؟؟۔۔ فقیر نے کہا کہ۔ بندے اور اللہ کا معاملہ طے کرانے میں لگا ہوں۔ انسان تو تیار ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ اب دیر ہو گئی ہے، یہ قبر میں پہنچ چکا ہے، اب اللہ تیار نہیں ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک کی سورۃ التوبہ آیت نمبر ایک سو چھبیس میں فرماتا ہے۔۔(ترجمہ) اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دوبار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔