میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نظریاتی کارکن (دوسری اور آخری قسط)

نظریاتی کارکن (دوسری اور آخری قسط)

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

وہ جب چاہتے ہیں عمران خان کو چھوڑدیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پھر دوبارہ جوائن کرلیتے ہیں کیونکہ بقول برگر گروپ کے عمران خان صاحب کو ان کے لیے ہینڈل کرنا یا چلانا بہت آسان ہے، بس تھوڑا سا چندہ جمع کرکے اور ایک دو اچھی پارٹیاں کرلو تو خان صاحب ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ان کی یہ بات کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ ہر مرتبہ اسٹریٹ ورکرز کی ساری محنت ضائع کرکے ان برگرز کو مسلط کردیا جاتا تھا۔ 1997ءکا جنرل الیکشن تھا اور میں حلقہ 188 کراچی سے قومی اسمبلی کا امیدوار تھا اور یہ وہ حلقہ تھا جہاں سے ایم کیو ایم پورے کراچی اور شائد پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لیتی تھی، اس کے مقابلے پر میں نے الیکشن اس لیے لڑا کہ پاکستان تحریک انصاف کا نا م زندہ رہے، ہارنا اور جیتنا مقصد نہیں تھا، لیکن اس برگر گروپ نے ان سیٹوں پر الیکشن لڑا جہاں سے سمجھ رہے تھے کہ یہ جیت جائیں گے لیکن سب بُری طرح ہارے تو وہ سب پارٹی چھوڑ کر چلے گئے، کوئی امریکا چلا گیا کوئی کہیں، کوئی کہیں؟ عمران خان صاحب جب کراچی آئے تو صرف چند لوگ ہی تھے جو ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ 2002ءکے جنرل الیکشن میں، میں نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب حلقہ 118 سے لڑا، اس دفعہ بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر یہی گروپ قابض تھا کیونکہ الیکشن سے پہلے یہ سب واپس آگئے تھے کیونکہ فنڈز اور ٹکٹوں کا معاملہ تھا اور پھر و ہی ہوا کہ یہ الیکشن بھی ہارگئے۔ امان اللہ پراچہ کراچی کے صدر تھے اور یہ برگر گروپ اس کے سرپر سوار تھا وہ بھی کچھ عرصے تک ان کے ساتھ چلے اور پھر و ہی ہوا کہ وہ بھی پارٹی سے چلے گئے۔ 2008ءکے الیکشن سے پہلے مشرف کے دور میں عمران خان کراچی یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے آئے، اس سے پہلے سر سید انجینئرنگ یونیورسٹی بھی جانا تھا۔
سر سید یونیورسٹی میں ایم کیو ایم کے طلبا نے مبینہ طور پر حملہ کردیا اور سخت احتجاج کیا، ہمارے پہنچنے پر سخت نعرے بازی اور دھکم پیل ہوئی اور ہم اندر کیمپس میں پہنچ گئے، عمران خان ایک بہادر انسان ہیں اور وہ ڈرتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں یونیورسٹی کا دورہ مکمل کروں گا اور ہم نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ طلباءسے خطاب کریں اور انہوں نے ہمارا یہ مشورہ قبول کرلیا اور طلباءسے خطاب بھی کیا۔ اس وقت میری جانباز ٹیم موجود تھی اور پھر کراچی یونیورسٹی کا جس روز دورہ تھا اور خطاب کرنا تھا اور وہ بھی سخت ترین دن تھا جو میری فیملی کیلیے بھی بُرا اور سخت دن تھا جب کراچی یونیورسٹی پہنچے تو جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم نے اپنے تیار کردہ منصوبے کے تحت حملہ کردیا۔ جس گاڑی میں عمران خان تھے اس گاڑی پر انہوں نے براہ راست حملہ کیا، میں گاڑی سے اُترا ،چونکہ گاڑی کی ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی تھی، ہمارے لڑکے عمران خان صاحب کو اپنی تحویل اور حفاظت پر مامور تھے، آگے تھوڑے سے فاصلے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ پھر تحریک کے بکھرے ہوئے لوگ اکٹھے ہوگئے اور ہم نے خان صاحب سے خطاب کرایا، شائد عمران خان صاحب کو یاد ہو کہ اس حملے میں میرے بھائی علی جان کی آنکھ پر شدید چوٹ آئی اور ایک آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی اور علاج کا سلسلہ جاری ہوا تو آپریشن کے بعد ڈاکٹرز کی ٹیم نے بینائی کی بحالی میں اپنی مایوسی کا فیصلہ سنادیا۔
اس حملے میں محمد اشرف میمن کی لینڈ کروزر کے شیشے ٹوٹ گئے اور میری پوٹھوہار جیپ اور سوزوکی پک اپ تباہ ہوگئی، کئی لڑکے زخمی ہوگئے تھے اور کئی گرفتار بھی ہوئے، ان میں خوف نہ تھا اور نہ ہی یہ فرار ہوئے، چونکہ یہ نظریاتی لوگ تھے جو معاشرے کو انصاف دینے اور دلانے کی جنگ لڑرہے تھے، وہ خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ اس طرح ہم نے اپنی سیاسی اور نظریاتی کارکردگی بڑھادی تھی، اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ دن بعد میرے ہوٹل پر حملہ ہوا اور شدید فائرنگ ہوئی اور براہ راست فائر کئے گئے جس سے میرے اسٹاف کے لوگ بڑی مشکل سے بچے لیکن ہمارے قریب اور سامنے مدرسہ ہے جس کے بچے زخمی بھی ہوگئے۔ کافی مسائل پیدا ہوچکے تھے جس کے نتیجے میں ہمارا کاروبار بھی دوسری دفعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا، جس ریسٹورنٹ سے میری اچھی آمدنی تھی وہ ختم ہوگئی اور انتہائی کم معمولی ٹھیکے پر دے دیا ۔اس پر مجھے فخر تھا کہ حالات نے میرے لیے شدید مشکلات تو پیدا کردیں لیکن میں نے بھی عمران خان اور پارٹی سے اپنی وابستگی کا رشتہ نہیں توڑا اور نہ ہی اپنے سیاسی کردار کا راستہ تبدیل کیا، اس کے باوجود کہ ہماری فیملی مخالفت میں تھی اور میری مخالفت تیز سے تیز تر ہوتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ عمران خان صاحب میرے گھر آئے تو میری شریک حیات ایک دن پہلے ہی گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں، محلے کی اور عمران خان کی مداح خواتین کا ہجوم تھا ،وہ عمران خان کا استقبال کررہی تھیں۔الغرض میں نے طرح طرح کی مشکلات کا مقابلہ کیا لیکن میں نے کبھی پارٹی چھوڑنے کا سوچا تک نہیں، کیونکہ یہ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے کے نظریے کو لے کر اٹھے ہیں، ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے اور انصاف مہیا کرنے میں ہر طرح کی قربانی دیں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج جس مقام پر کھڑے ہیں ،ہماری یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ 20 سال کے بعد ہماری یہ تمام محنت ضائع کیوں ہوئی ۔پورا ملک جانتا ہے کہ کراچی میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ایک بھیانک خواب تھا، اب تو حالات کچھ بہتر ہیں، اس سے قبل تو کسی بھی وقت جان جانے کا خدشہ موجود رہتا تھا، یہاں تو متعدد بار میرے موبائل پر گولیوں کی تصویریں بھیجی گئیں اور کہاں پیدا ہوئے اور کہاں مرو گے، کہاں بیٹھو گے؟ اور کہاں لیٹو گے،جیسے سوال پوچھے گئے۔ کیا کیا اور کہاں تک ذکر کریں۔ 2001ءکے بلدیاتی انتخاب میں جب انصاف پسند گروپ کے نام سے ہم کراچی میں الیکشن لڑرہے تھے اور عائشہ منزل پر ہمارا مرکزی دفتر تھا، اس پر بھی حملہ ہوا، کس کس واقعے کو بیان کیا جائے؟ 1996 تا 2017 پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر شاید خان صاحب یہ کتاب نہ پڑھ سکیں، ابھی تو ہم اس کے منتظر ہیں کہ خود تحریک انصاف میں انصاف کب آئے گا اور پھر کب عمران خان سچ سننے اور سمجھنے کی زحمت کریں گے ۔ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ 2018تک کے انتخاب سے پہلے اگر توجہ ان حقائق پر دے دی اور حقیقی تبدیلی آئی تو پھر پارٹی کے پرچم کو کوئی سرنگوں نہیں کرسکتا، باقی تو صورت حال سامنے ہے، کیا بیان کروں؟
کراچی نے قومی سیاست کو بہت بڑے بڑے رہنما دیے، مولانا شاہ احمد نورانی، شیر باز مزاری، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر این ڈی خان پھر ان کے بعد دوسری صف میں بھی ایک کھیپ تھی مگر انیس سو پچاسی کے بعد صورت حال کچھ تبدیل ہوئی۔ شہر میں ایک جماعتی نظام کی وجہ سے اعلیٰ قیادت سے دوسرے تیسرے چوتھے درجے کی سیاسی قیادت ایک ہی چھتری تلے جمع رہی ،باقی کسی سیاسی جماعت کا چراغ ہی نہ جل سکا ۔ایسے وقت کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں کام کرنے والی بعض ایسی جماعتیں جنہیں عوام میں پذیرائی ہے یا آگے چل کر مل سکتی ہے۔ ان جماعتوں کو اپنے نظریاتی کارکن سنبھال کر رکھنے چاہئیں،فصلی بٹیرے اور مفادات کے اسیر تو کسی بھی دور میں مارکیٹ ریٹ پر مل جاتے ہیں، نظریاتی کارکن انمول ہوتے ہیں۔ “
اشرف قریشی نے اپنے خط میں کچھ چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کیا ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بہر حال ایک نظریاتی سیاسی کارکن ہیں۔ عمران خان سے ان کا رومان آج کا نہیں، اس وقت تو کپتان ملکی سیاست کے بڑے اپوزیشن لیڈر ہیں جو میڈیا کے بھی لاڈلے ہیں، مگر اشرف قریشی اس وقت سے ان کا مداح ہے جب لوگوں کی معمولی تعداد ان کے ساتھ آنے پر تیار تھی، لوگ ان کے ساتھ تصویر بنانے کی خواہش تو رکھتے تھے مگر ایک قدم ساتھ چلنے پر تیار نہ ہوتے تھے ،ایسے میں اشرف قریشی ان کا دست و بازو بنا، ایسے قیمتی لوگوں کو ضائع کرنا دانشمندی نہیں، مگر یہ بات تو وہی سمجھے گا جو سمجھنا چاہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں