میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن کمیشن اپنی غیر جانبداری ثابت کرے

الیکشن کمیشن اپنی غیر جانبداری ثابت کرے

ویب ڈیسک
بدھ, ۱ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن کی مسلسل عدم دلچسپی کے باعث نہ صرف یہ کہ مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جارہا ہے بلکہ ملک بھر میںکم و بیش ایک کروڑ 21 لاکھ ایسی خواتین جو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اہل ہیں ووٹرز لسٹ میں نام نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے سے محروم ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 51 فیصد خواتین اور 49 فیصد مردوں پر مشتمل ہے لیکن قومی ووٹرز لسٹیں اس کے برعکس نقشہ پیش کررہی ہیں۔ اخبار ات نے دستیاب دستاویز کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ الیکشن کمیشن کے عملے اورافسران کی نااہلی یا فرض ناشناسی کے سبب کم وبیش ایک کروڑ 21 لاکھ اہل خواتین ووٹ ڈالنے کا حق استعمال نہیں کرسکیںگی۔ خبروں کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ 67 لاکھ اور سندھ میں 22 لاکھ خواتین ووٹرز لسٹوں میں شامل نہیں ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں 20 لاکھ، بلوچستان میں 5 لاکھ 69 ہزار، فاٹا میں 5 لاکھ 23 ہزار اور اسلام آباد میں 52 ہزار خواتین کا ووٹرز لسٹوں میں اندراج نہیں ہے۔ اگر یہ خبریں درست ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے کن حکام پر عاید ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام ہی کرسکیں گے،لیکن اگر ان خبروں میں معمولی سی بھی صداقت ہے تو یہ انتہائی افسوسنا ک صورتحال ہے اور الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام کو خود ہی اس کی ذمہ داری کا تعین کرکے متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کا آغاز کردینا چاہئے ،ایک ایسے وقت جب معاشرہ کا ہر طبقہ خواتین کو بااختیار بنانے اور انھیں حکومت سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل کرنے اور سیاسی جماعتوں کو مخصوص تعداد میں خواتین کو امیدوار نامزد کرنے کا پابند کیاجارہاہے یہ بات یقینا تشویشناک ہے کہ مرد اور خواتین ووٹرز کا فرق روز بروز بڑھتا جارہا ہے، الیکشن کمیشن نے خواتین کو انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کے لیے کمیشن نے شعبہ جینڈر بھی بنایا تھا لیکن 2 سال کے دوران اس شعبے کی کارکردگی بھی واجبی سی رہی۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ دنوں ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی جو تفصیلات جاری کی ہیں، اُن کے مطابق حق رائے دہی کے حامل افراد کی تعداد 9 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔جن میںمرد ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 23 لاکھ 63 ہزار 948 جب کہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز 4 کروڑ 7 لاکھ 8 ہزار 679 بتائی گئی ہے، اس طرح ملک بھر میں 56.26 فیصد مرد اور43.74 فیصد خواتین ووٹرزہیں۔ووٹرز لسٹوں کے مطابق گزشتہ 3 برس کے دوران پنجاب ، خیبر پختونخوا اور سندھ میں رجسٹرڈد ووزٹر کی تعداد میں اضافہ جب کہ بلوچستان اور فاٹا میں کمی ہوئی ہے۔پنجاب میں 3 سال میں 45 لاکھ 65 ہزار 286 نئے ووٹ رجسٹر ہوئے، جس کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 38 لاکھ 24 ہزار 620 تک جا پہنچی ہے جب کہ مئی 2013 میں رجسٹرڈ ووٹرز 4 کروڑ 92 لاکھ 59 ہزار 334 تھے۔2013 میں سندھ میں کل رجسٹرڈ ووٹرز ایک کروڑ 89 لاکھ 63 ہزار 375 تھے جو کہ 2016 میں بڑھ کر 2 کروڑ ایک لاکھ 30 ہزار 897 ہوگئی ہے، اس طرح 3 برسوں میں سندھ کے ووٹرز میں 11 لاکھ 67 ہزار 522 ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔خیبر پختونخوا میں گزشتہ 3 برسوں میں 11 لاکھ 10 ہزار 497 ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد اب صوبے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ 66 ہزار 157 سے بڑھ کر ایک کروڑ 33 لاکھ 74 ہزار 664 ہوگئی جب کہ بلوچستان میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 33 لاکھ 33 ہزار 318 ہے۔اسلام آباد میں 3 سال میں 58ہزار 860 ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے، وفاقی دارالحکومت میں کل رجسٹرڈ ووٹرز 6 لاکھ 84 ہزار 824 ہیں جب کہ 2013 عام انتخابات میں کل رجسٹر ووٹرز 6 لاکھ 25 ہزار 964 تھے۔فاٹا میں اس وقت کل رجسٹرڈ ووٹرز 17 لاکھ 22 ہزار 304 ہیں جب کہ 2013 میں کل رجسٹر ووٹرز 17 لاکھ 38 ہزار 313 تھے، اس طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں 3 برس کے دوران 16 ہزار 9 ووٹرز کم ہوئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اس فہرست کو بغور دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ فہرستیں تیار کرنے میں پوری احتیاط نہیں برتی گئی اور اس کو جاری کرنے کی منظوری دینے والے افسران نے بھی اس پر دستخط کرتے وقت اس کا بغور جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ورنہ ان کو فوری طورپر یہ بات محسوس کرنی چاہئے تھی کہ جب ہمارے ملک میں خواتین کی مجموعی تعداد مردوں سے کم وبیش 2 فیصد زائد ہے تو پھر ووٹرز لسٹ میں ان کی تعداد کم کیونکر ہوسکتی ہے۔اگر الیکشن کمیشن کے حکام اس معمولی سی بات پر توجہ دیتے تو شاید یہ تنازع کھڑا نہ ہوتا اور اتنی بڑی تعداد میں خواتین اپنے حق رائے دہی سے محروم نہ رہتیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے حکام کو اس پر توجہ دینی چاہئے اور ووٹرز کی فہرستوں میں اگر کوئی غلطی رہ گئی ہے تو اس کی فوری طورپر اصلاح کرنی چاہئے، ورنہ خواتین اور مرد ووٹروں میں موجود تفاوت کے اسباب کی وضاحت کرنی چاہئے۔ تاکہ اس حوالے سے عام لوگوں میں پائے جانے والے شکوک وشبہات دور ہوجائیں اورکوئی بھی بالغ مرد یا خاتون اپنے حق رائے دہی سے محروم نہ رہے اورکسی کو الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں