عمران خان کے لانگ مارچ سے آگے
شیئر کریں
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والے شدید سیاسی اور معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے مختلف سطح پر کوشش کی جارہی ہے ممکنہ طور پر کسی قابل قبول عبوری حکومت کی تجویز بھی دی گئی ہے جس پر اتفاق رائے مشکل ہے ملک میں حکومت تقریباً مفلوج ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس بحران کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے شہباز شریف کی حکومت کے اب تک کے اقداما ت اور مسلسل تذبذب کے عالم میں مبتلا رہنے سے مزید پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے نواز شریف اور مریم نواز فوری الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں شہباز شریف وزیر اعظم برقرار رہنا چاہتے ہیں پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری بھی حکومت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بلاول بھٹو کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ 2023کے انتخابات میں بلاول بھٹو کو پاکستان کا وزیر اعظم بنایا جائے ہر گذرتے لمحات سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہو رہا ہے اور اپنے ووٹ بنک کو کم کرتی جا رہی ہے تحریک انصاف نے اسلام آ باد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے حکومت تحریک انصاف کے خلاف طاقت کے استعمال کی تیاری کر رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں مقدمات اور دیگر حکومتی اقدامات شامل ہیں جس سطح کا غیظ وغضب پی ٹی آئی کے حامیوں میں موجود ہے وہ عوامی سطح تک پہنچ چکا ہے اس لیے کسی بھی کارروائی کے جواب میں جس سطح کا ملکی اور بین الاقوامی سطح کا احتجاج ہوگااس دبائو کو حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوگا اور یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوگا کہ ھکومت کو عمران خان کا ہر مطالبہ تسلیم کرناہوگا ایسی صورت میں ملک میں تحریک انصاف کی بالادستی ہو سکتی اور مسلم لیگ بہت زیادہ کمزور ہوسکتی ہے اس کے انتہائی خطرناک اثرات ہونگے اور خصوصاً مسلم لیگ ن اسکے نتیجے میں قومی اور بین القوامی سطح پر نشانہ بنے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی رابطہ مہم کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھے ہو ئے ہیں کثیرالجماعتی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اگست 2023تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی عین اسی موقع پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے اس کے فوری اثرات پنجاب حکومت پر ہونگے اور حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے حالات میں خرابی کی وجوہات جاننے کے لیے اب تک جو کچھ ہوا اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے آخر ایسا کیا ہوا کہ ملک میں موجودہ حکومت کے خلاف اس قدر عوامی غصے اور نفرت کی لہر پید ا ہوگئی ہے پورا سیاسی نظام تہہ و بالا ہوکر رہ گیا حکومت کی تبدیلی کے فوراً بعد اچانک پہلے روز کیسے عمران خان کی حمایت میں لوگ سڑکوں پر آگئے کس طرح رفتہ رفتہ عمران خان چند جلسوں کے نتیجے میں صرف دیڑھ ماہ کی قلیل مدت میں مقبولیت کے عروج تک پہنچ گئے مسلم لیگی کارکن بھی اب کیوں پی ٹی آئی کی طرف راغب ہو رہے ہیں یہ ایک اچھنبا ہے حیرت کی بھی بات ہے یہ سلسلہ بڑھ گیا تو مسلم لیگ شدید مسائل سے دوچار ہوگی غصے کی لہر ایک آتش فشاں کی کیفیت اختیار کررہی ہے سیاست کے رجحان کا جائزہ لینے والے جن دانشوروں کو یہ آتش فشاں نظر نہیں آرہا یقینا انہیں کم از کم حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے کی فوری ضرورت ہے نئی حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل بتایا جا رہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ملک میں ایسا معاشی اور سیاسی استحکام آئے گا کہ چند ہی ہفتوں میں ملک مزید معاشی اور سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہوگا یہ سلسلہ ایک سال سے جاری تھا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملکی اور غیر ملکی طاقتور حلقوں کو یہ باور کرارہی تھیں کہ عوام کی حمایت کے ساتھ ہے عمران خان کی حکومت کو مصنوعی طریقے سے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا ہے اور اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ نہ صرف چند روز میں مہنگائی پر قابو پالیں گے بلکہ روزگار کے نئے موقع پید ا کرکے خوشحالی کے سفر کا آغاز کردیں گے یہ ایک طرح کا جھانسا اور دام فریب تھا اس میں چاپلوسی بھی شامل تھی مسلسل کوشش کے بعدکچھ اہم لوگ دام فر یب اور جھا نسے میں آگئے اور ملک میں بغیر تیاری اور ناقص منصوبہ بندی سے نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے عدم استحکام میں اضافہ ہوا بدترین معاشی بحران پیدا ہوگیا موجودہ حکومت کے حامی ملک کے چند نامور تجزیہ نگا ر اور تبصرہ کرنے والوں کے علاوہ مسلم لیگ ن کے بعض رہنمااور ماہر معیشت دان نئی حکومت کے ابتدائی ایام میں سعودی عرب ،چین اور امریکا سے اربوں ڈالرکی فوری مدد کی نوید سنارہے تھے وہ اب کچھ شرمندہ سے نظر آتے ہیں ۔
پہلے بعض اینکرز کی ٹی وی چینلز پر گفتگو سے موجودہ حکومت کی واضح جانب داری اور خوشی جھلکتی تھی اب ان میں اعتماد کے بجائے بے یقینی اور لا چارگی نظر آرہی ہے اب وہ لوگ عقلمند کے بجائے ’’عقلبند ‘‘ نظر آتے ہیں موجودہ حکومت کو بین الاقومی سطح پر امریکی حکومت کی حمایت اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ڈالروں کی شکل میں قرضوں کی توقع ہے لیکن وہ بھی کشیدہ حالات میں کس حد تک مددکرینگے اورجواب میں کیا شرائط ہونگی پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھانے کی شر ط پہلے ہی عائد ہے دیگر شرائط بھی واضح نہیں ہیںاس تبدیلی کے نتیجے میں چین کی ناراضگی کی خبریں آرہی ہیں چینی زبان سکھانے کے تمام مراکز بند ہو چکے ہیں ایک ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بائیس چینی کمپنیوں نے کام بند کردیا ہے اور سرمایہ کاری روک دی ہے ایران اور افغانستان بھی خوش نہیں ہیں روس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں تو امریکہ کی ناراضگی ہے وزیر اعظم اور دیگر وزراء دنیا میں جہاں جاتے ہیں ان کے خلاف نعرے بازی اور مظاہرے ہوتے ہیںتحریک انصاف کے کارکن گلی گلی محلہ محلہ جس جوش اور جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں اس کے اثرات سے حکومت مزید کمزور ہورہی ہے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے شہباز شریف کو حکومت کا اختیار دیا ہے لیکن اگر اس میں نواز شریف اور مریم نوازاور ان کے ساتھی ہر سطح پر محروم ہیں البتہ پیپلزپارٹی اپنا مقام بنانے میں کوشاں ہیں آصف زرداری نے سندھ میں اپنا قلعہ بنالیا جہاں سے وہ اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں اب وہ کس طرح موجودہ حکومت کو بچاتے ہیں یا نگراں حکومت میںکس قدرحصہ مانگتے ہیں یہ ایک دلچسپ صورت حال ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔