میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دور جدید کے فرعون ونمرود

دور جدید کے فرعون ونمرود

منتظم
اتوار, ۳۰ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

sehra-ba-sehra-1

محمد انیس الرحمن
تاریخ میں فرعون اور نمرود کا کردار ان کی ایک مگر سنگین ترین خطا کی بدولت ہمیشہ کے لیے بھلا دیا گیا ہے ۔ غلطی ان کی یہ تھی کہ انہوں نے اللہ رب العزت کے اختیارات میں حصہ دار بننے کی ناکام کوشش کی تھی جس کی وجہ سے ان پر ایسا عذاب آیا کہ ان کے سنہرے کارنامے تک تاریخ میں حرف غلط کی طرح مٹا دیے گئے اور ان کو ان کے ظلم اور نافرمانی کے حوالے سے یاد رکھا گیا۔آج کے جدید دور میں عبرت کا سبق پڑھنے کے لیے اگر نمرود اور فرعون کے اس کردار کی جانب نظر دوڑائی جائے جس میں انہوں نے اپنی اپنی قوموں کے لیے فلاحی کاموں کے حوالے سے کارنامے انجام دیے تھے تو ان کی ”مشرکانہ خطائ“ کے انجام سے آسانی کے ساتھ آگاہ ہوا جاسکتا ہے۔
قدیم ترین تہذیبوں میں دجلہ اور فرات کے کناروں پر بسنے والی تہذیب اور دوسری جانب دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹا پر بسنے والی مصری تہذیب سے بڑھ کر کسی تہذیب نے حیران کن ترقی کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ کیا ہم آج کے اس جدید دور میں اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ظلم اور بے انصافی کے نظام کے ساتھ کیا اس قدر ترقی ممکن ہے جو مصری اور بابلی تہذیب نے کی تھی؟ بالکل نہیں ،ظلم اور بے انصافی کے ساتھ کوئی معاشرہ کبھی اپنی جغرافیائی حدود میں باقی نہیں رہ سکتا پھر بابل اور مصر کی تہذیب کیسے باقی رہی۔۔۔ ؟
نمرود اپنے وقت کی علاقائی ”سپر پاور“ بابل کا مطلق العنان حکمران تھا اس زمانے کے بابلی حکمرانوں کی حکومت موجودہ عراق، ایران اور شمال مغربی افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی جبکہ دوسری جانب ان کی سلطنت کی حدود موجودہ ترکی سے ملی ہوئی تھی۔ بہترین انتظامات کے لحاظ سے اللہ رب العزت نے انہیں بہت سی صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ دارالسلطنت بابل خود اعلی معاشرتی ، معاشی اور تمدنی ترقی کا شاہکار تھا۔ نمرود اور اس جیسے حکمران اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کے لیے بھی مثالی حکمران تھے اگر قوم کو انصاف اور ترقی کے مواقع نہ ملتے تو کیا یہ تہذیبیں قائم رہ سکتی تھیں۔۔۔ یقینا نہیں ۔۔۔معاشرے تہذیب اور تمدن، علم وفن کے بغیر نمو نہیں پا سکتے اور علم وہنر وہیں نمو پاتا ہے جہاں انصاف اور سہولیات قوم کو میسر ہوں۔
دوسری جانب مصر کا حال دیکھتے ہیں یہاں پر فرعونوں کی حکومت تھی وہ فرعون جو آج ظلم اور ستم کا نشان سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ حکمران بھی اپنی قوم اور مملکت کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ مصر کو تاریخ انسانی میں Gigantic engineering complex یعنی جناتی صنعت وحرفت والی ریاست قرار دیا گیا ہے۔ اس صنعت وحرفت کے آثار آج تک ذہن انسانی کو محو حیرت کردینے کے لیے کافی ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا جس ریاست میں ظلم وستم ہو ،سائنس کے شعبے میں اس قدر ترقی ہوسکتی تھی کہ جس پر آج کی ترقی یافتہ دنیا بھی انگشت بدانداں ہے؟۔۔۔ یقینا نہیں۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں جدید ترین ریاستوں کے حکمران تباہی سے دوچار ہوئے اور اس طرح ہوئے کہ الہامی کتابوں میں انہیں مردود اور اللہ رب العزت کا باغی کہا گیا ہے۔کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ ”گناہ“ کیا تھا جس کی پاداش میں یہ تہذیبیں باعث عبرت بنا دی گئیں۔۔؟
وہ گناہ شرک تھا اور اللہ رب العزت کے اختیارات میں دخیل ہونے کی کوشش تھی جسے اللہ رب العزت نے ناپسند فرمایا ۔ انسانی جبلت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اختیارات کی فراوانی ہے۔ جس وقت نمرود اور فرعون نے اپنے اپنے دور کی جدید ترین مملکتوں کے تاج سر پر رکھے تو ان کا جوف طلب اس سے بھی بھر نہیں پارہا تھا۔جس وقت فرعون نے یہ کہا کہ ”میں تمہارا رب ہوں“تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ زمین اور آسمان کی تخلیق کا دعویٰ کررہا ہے، نہ ہی اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو پیدا کرنے کا دعویٰ کررہا ہے، کیونکہ خود اس کے دربار میں بہت سے عمر رسیدہ درباری موجود تھے جن کے سامنے خود فرعون پیدا ہوا تھا۔ ایسا کہنے سے اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ جس زمین کے ٹکڑے پر وہ حکمران ہے وہاں پر صرف اس کا قانون چلے گا اور لوگوں کو زندگیاں اس کی مرضی کے مطابق گزارنا ہوں گی ۔ ایسی ہی خطا میں بابل کا نمرود بھی مبتلا ہوا تھا وہ اس بے پناہ تمدنی ترقی اور معاشی خوشحالی کو اپنا کمال سمجھ بیٹھا تھا ،اس کی قوم اور ریاست پر جو نعمتیں برس رہی تھیں اسے وہ اپنی حکمت سے تعبیر کرنے لگا تھا اور اسی زعم میں اس نے خلیل اللہ سیدنا ابراہیم ؑ سے اپنے اختیارات کے حوالے سے مباحثہ شروع کردیا تھا اور لاجواب ہوکر اللہ کے برگزیدہ نبی کو آگ میں پھینکنے کا حکم صادر کر بیٹھا ۔نمرود اور فرعون کی ان غلطیوں کے کیا نتائج نکلے اس کے لیے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، ہر مسلمان اس بات سے اچھی طرح واقف ہے۔
نمرود اور فرعون ہر دورمیں شکلیں بدل کر کبھی مختلف تقاضوں میں آتے ہیں اور اللہ رب العزت کو حاکم اعلیٰ اور طاقت کا سرچشمہ ماننے کی بجائے اپنی فانی ذات میں ایسے خدائی اوصاف تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے فرعون اور نمرود تشخص کے لحاظ سے مفرد شکل میں نہیں © بلکہ کئی ہزار کی ٹولی کی شکل میں انسانوں پر مسلط ہیں۔ صرف پاکستان کی ہی مثال لے لی جائے کہ یہاں کا فرعون تقریباً ساٹھ ستر ہزار کی ٹولی میں مسلط ہے جن میں سیاستدان، حکمران، سیاسی علمائ، بیوروکریسی، جاگیر دار، وڈیرے نوکر شاہی شامل ہے۔ اب فرعون قوم پر ایک شخص کی شکل میں نہیں، بلکہ ایک بڑے گروپ کی شکل میں ”بنام جمہوریت “حکومت کرتا ہے اور اپنے پیش رو کی طرح آج بھی اللہ کی زمین پر اپنا قانون نافذ کرنے کے درپے ہے۔ یہ باتیں مجھے اس وجہ سے یاد آئیں کہ چند روز قبل ہی حکمران جماعت کے رہنما کرپشن پر احتساب کی بجائے عوام میں جانے کی باتیں کررہے تھے کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔©©“ یہ دھوکا نما الزام طویل عرصے سے اس قوم پر لگایا جارہا ہے۔ اس سے بڑا مذاق اس قوم سے کیا ہوگا کہ اس ملک کے آئین میں سب سے اوپر لکھا ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ رب العزت ہے، یعنی اس سرزمین پر قانون اللہ کا چلے گا۔ لیکن گزشتہ ستر برس سے ہوکیا رہا ہے ؟کیا سود کے بارے میں نہیں کہا گیا کہ ”سود خور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ “ لیکن روز اول سے اس قوم کو سود کے جہنمی نظام میں جکڑا گیا ہے ۔ ہر وہ بات اور نظام جو اللہ رب العزت سے بغاوت پر اکسا دے اس مملکت خداداد میں رائج ہے ۔اس ملک کے حکمران ، بیوروکریسی بحیثیت مجموعی شخصی طور پر فرعون اور نمرود کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ تاریخ کے فرعون اپنی قوم کے لیے تو بہتر تھے لیکن جدید فرعون ایک طرف اللہ کے باغی ہیں اور دوسری جانب قوم کا بھی بیڑا غرق کرچکے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں