پہلے اور اب
شیئر کریں
دوستو،ان دنوں سوشل میڈیا یا ٹی وی اسکرینز، ہر جگہ نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کی بحث چھڑی نظر آتی ہے، پہلے ایسے ہوتا تھا، اب ایسا کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جو کچھ نئے پاکستان میں ہوا یا پرانے پاکستان میں ہورہا ہے، وہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی جگہ صرف ’’پاکستان‘‘ ہمارے لیے اہم ہے، اگر یہ ملک ہے تو پھر نیا بھی اپنا ہے اور پرانا بھی اپنا ہے۔۔ لیکن خدانخواستہ یہ ملک ہی نہ رہا، دیوالیہ ہوگیا تو سوچو،نئے پاکستان کا اچار ڈالیں گے؟ یا پرانے پاکستان پر چٹنی ڈال کر اسے چاٹیں گے؟؟پاکستان کی فکر کرنا ہوگی، پاکستان کے لیے سوچنا ہوگا،اس کی تعمیر و ترقی کے لیے تن،من،دھن کی قربانی دینی ہوگی۔۔ برا وقت سب پر آتا ہے، مل بانٹ کر اس وقت کو گزاریں تو سب کے لیے اچھا ہی ہوگا۔۔
بات ہورہی تھی پہلے یہ ہوتا تھا اب ایسا ہوتا ہے۔۔ اسی بحث کی تفصیل میں جائیں تو پہلے۔۔ وہ کنویں کا میلا اور گدلا پانی پی کر 100 سال جی لیتے تھے۔۔ اب خالص شفاف پانی (منرل واٹر)پی کر بھی چالیس سال میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔۔۔پہلے وہ گھانی کا میلا سا تیل کھا کر اور سر پر لگا کر بڑھاپے میں بھی محنت کر لیتے تھے۔۔۔اب ہم ڈبل فلٹر اور جدید پلانٹ پر تیار کوکنگ آئل اور گھی میں پکا کھانا کھا کر جوانی میں ہی ہانپ رہے ہیں۔۔پہلے وہ ڈلے والا نمک کھا کر بیمار نہ پڑتے تھے۔۔اب ہم آیوڈین والا نمک کھا کر ہائی اور لو بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔۔۔پہلے وہ نیم، ببول، کوئلہ اور نمک سے دانت چمکاتے تھے اور 80 سال کی عمر تک بھی چبا چبا کر کھاتے تھے۔۔اب طرح طرح کے جدید اور مہنگے ترین ٹوتھ پیسٹ لگا کر بھی ڈینٹسٹ کے چکر لگاتے ہیں۔۔پہلے صرف روکھی سوکھی روٹی کھا کر فٹ رہتے تھے ۔۔اب برگر، چکن کڑاہی، شوارمے،پیزا، وٹامن اور فوڈ سپلیمنٹ کھا کر بھی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔۔پہلے لوگ پڑھنا لکھنا کم جانتے تھے مگر جاہل نہیں تھے۔۔اب ماسٹر لیول ہو کر بھی جہالت کی انتہا پر ہیں۔۔پہلے حکیم نبض پکڑ کر بیماری بتا دیتے تھے۔۔اب ا سپیشلسٹ درجنوں ٹیسٹ کرانے کے بعد بھی بیماری نہیں جان پاتے۔۔پہلے وہ سات آٹھ بچے پیدا کرنے والی مائیں، جنہیں شاید ہی ڈاکٹر میسر آتا تھا 80 سال کی ہونے پر بھی کھیتوں میں کام کرتی تھی۔۔اب ڈاکٹر کی دیکھ بھال میں رہتے ہوئے بھی نا وہ ہمت نا وہ طاقت رہی۔۔پہلے کالے پیلے گڑ کی میٹھائیاں ٹھوس ٹھوس کر کھاتے تھے۔۔اب مٹھائی کی بات کرنے سے پہلے ہی شوگر کی بیماری ہوجاتی ہے۔۔پہلے بزرگوں کے کبھی گھٹنے نہیں دکھتے تھے۔۔اب جوان بھی گھٹنوں اور کمر درد کا شکار ہیں۔۔۔پہلے 100 واٹ کے بلب ساری رات جلاتے اور 200 واٹ کا ٹی وی چلا کر بھی بجلی کا بل 200 روپیہ مہینہ آتا تھا۔۔اب 5 واٹ کا ایل ای ڈی انرجی سیور اور 30 واٹ کےLED ٹی وی میںپا نچ سے دس ہزار مہینہ بل آتا ہے۔۔پہلے خط لکھ کرسب کی خبر رکھتے تھے۔۔اب ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ ہو کر بھی رشتے داروں کی کوئی خیر خبر نہیں۔۔پہلے غریب اور کم آمدنی والے بھی پورے کپڑے پہنتے تھے۔۔اب جتنا کوئی امیر ہوتا ہے اس کے کپڑے اتنے کم ہوتے جاتے ہیں۔۔پہلے محلے میں سب کو ایک دوسرے کا پتہ ہوتا تھا،خوشی غمی میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا۔۔اب پڑوس میں ڈکیتی ہورہی ہوتو بے خبر رہتے ہیں، کوئی مرجائے تو ایک ہفتہ بعد حیرت سے پوچھتے ہیں ، ارے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیوں کھڑے ہیں؟کیا کھویا کیا پایا؟
پہلے ساس کا زمانہ ہوتا تھا اب بہوئیں کسی سے کم نہیں۔۔ شادی کے اگلے دن بہو آرام سے گیارہ بجے سو کر اٹھی تو ساس کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔۔ صبح جلدی اُٹھ جایا کرو، ہم لوگ چھ بجے چائے پی لیتے ہیں۔ تمہاری یہ عادتیں ہم لوگ برداشت نہ کریں گے۔۔تمہاری ماں کا گھر نہیں ہے۔۔بہو نے کوئی جواب نہیں دیا،اپنے کمرے میں گئی اور ایک ڈائری،پین اور دو بیگ لے کر واپس آئی اور کہنے لگی۔۔ ساسو ماں، یہ وہ لسٹ ہے جو شادی سے پہلے آپ لوگوں نے میرے گھر بھیجی تھی، آپ ملالیں جہیز میں کوئی چیز کم تو نہیں رہ گئی؟؟ سوئفٹ کار مالیت ستائیس لاکھ روپے۔۔ اسمارٹ ٹی وی بیالیس انچ قیمت پچاس ہزار۔ فریج ستاون ہزار۔واشنگ مشین آٹومیٹک ستائیس ہزار۔۔اوون، اے سی، سوفہ سیٹ، ڈائننگ ٹیبل، ڈبل بیڈ، کپ بورڈ، کراکری، بیڈ شیٹس تقریبا چار لاکھ۔۔نقد سلامی کے دس لاکھ روپے،زیورات سات تولہ مالیت گیارہ لاکھ روپے۔۔یہ رہیں رسیدیں۔۔ آپ لوگوں نے اپنے لڑکے کی قیمت لگائی، میرے والدین نے قیمت ادا کرکے میرے لیے شوہر خریدا ہے۔۔اب آپ بتائیں میرے بارے میں کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی تھی کہ لڑکی کیسی ہونی چاہیئے؟؟ پھر نئی نویلی دلہن نے اپنے خوب صورت سے بیگ کی زپ کھولی، سب دلچپسی سے کھڑے دیکھ رہے تھے۔۔ساس نے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ بہو بولی۔۔میرے والد نے یہ ریوالور دیا ہے اور کہا تھا کہ بیٹی تم یہاں تھیں تو تمہاری حفاظت میرا فرض تھا،اب تمہیں خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی۔۔ساس نے اپنی بے ترتیب سانسوں پر قابوپایا اور جلدی سے کہنے لگی۔۔ بہو، تم ابھی سوکر اٹھی ہو کمرے میں چلو میں تمہارے لیے چائے بناکر لاتی ہوں۔۔
نئے اور پرانے کا جھگڑا صدیوں پرانا ہے۔۔پرانی اور روایتی قسم کی ساس نے طنزیہ انداز میں بہو سے کہا۔۔ بیٹا! کبھی تھکتی نہیں ہو اس موبائل سے؟۔۔بہو آج کے ماڈرن دور کی تھی، پٹاخ سے بولی۔۔ تھک جاتی ہوں کبھی کبھی تو لیپ ٹاپ آن کر لیتی ہوں۔۔ایک اور ساس نے پوچھا۔۔ نئی نویلی دلہن ہو ہاتھ کیوں خالی ہیں؟۔۔دلہن کہنے لگی۔۔ وہ دراصل موبائل چارجنگ پر لگایا ہے۔آج کے نوجوان کو جب نجومی نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں شادی کی لکیر نہیں ہے تو نوجوان بیساختہ بولا۔۔ بابا جی پاؤں میں دیکھ لیں کہیں وہاں نا ہو۔۔پرانے قسم کے رشتہ دار نے شہر سے آئے نوجوان سے پوچھا۔۔ بیٹا چائے لو گے یا بوتل؟؟نوجوان کہنے لگا۔۔ جب تک چائے بن رہی ہے تب تک بوتل پی لوں گا۔۔پرانا پھر پرانا ہوتا ہے۔۔تجربے کا کوئی توڑ نہیں۔۔ بیٹے نے پوچھا۔۔اباجی! شناختی کارڈ پہ شناختی علامت کیا لکھواؤں؟ابا نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔پتر سجے ہتھ وچ موبائل فون لکھوا دے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔وطن عزیز میں گزشتہ بہتر سال سے اگلے بہتر گھنٹے اہم ترین ہی رہے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔