ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہاں اسلام کے مطابق کچھ نہیں ہو رہا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
شیئر کریں
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹمنٹ کے معاملے پر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیٰسی کی سربراہی میں دو رکنی بینج نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں پلاٹ الاٹمنٹ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سرکاری ملازم محمد صدیق کی درخواست کی سماعت کی۔دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کے سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے سے متعلق اہم ریمارکس دیے گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اب یہاں اسلام کے مطابق کچھ نہیں ہورہا، ہم راتوں رات انقلاب لاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہاں وزیر اعظم اپنی صوابدید پر دو دو پلاٹ الاٹ کر دیتا ہے، وزیر اعظم کون ہوتا ہے ایسے پلاٹ دینے والا، ہمارے ملک میں پلاٹ دینے کا کوئی اصول نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ سیکریٹری کو دو پلاٹ دے دیے گئے، ہمارے ملک میں صرف بڑے لوگوں کو پلاٹ ملتے ہیں غریب کو کوئی پلاٹ نہیں دیتا۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں جنرلز کو پلاٹ دے دیے جاتے ہیں کیا وہ تنخواہ نہیں لیتے،کچی آبادی میں جاکر دیکھیں لوگوں نے اوپر نیچے چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے ہوئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہاؤسنگ فاونڈیشن کے وکیل سے استفسار کیا آپ بڑے افسران کو دو دو پلاٹ نہیں دیتے،جس پر وکیل کہنا تھا کہ پہلے دو دو پلاٹ دے دیے جاتے تھے 2006 کے بعد کسی کو دو پلاٹ نہیں دیے گئے۔درخواست گزار کے مطابق میں نے پلاٹ پر گھر تعمیر کر لیا اب مجھ سے پلاٹ واپس لیا جارہا ہے،جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کا پہلے ہی ایک پلاٹ تھا اس لیے آپ سے یہ پلاٹ واپس لیا جارہا ہے۔سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم محمد صدیق کی پلاٹ واپس کرنے کی درخواست مسترد کردی۔خیال رہے 23 فروری کو وفاقی دارالحکومت کے خصوصی سیکٹرز میں وفاقی ملازمین اور ججز کے لیے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سرکاری الاٹیز نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ازخودنوٹس لیتے ہوئے سرکاری افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی تھی، آئین کے تحت ہائیکورٹ کو ازخود لینے کا اختیار ہے نہ ہی یہ عدالت پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ زمینوں کے حصول کے نقطے پر پہلے ہی اصول وضع کر چکی ہے، فیصلہ دیتے وقت ہائی کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے وضع کردہ اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا۔درخواست گزار الاٹیز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الاٹمنٹ بحال کرنے کی استدعا کی اور کہاکہ کیس سیکٹر ایف 14اور 15 کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا نہیں تھا۔3 فروری 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف جی ای ایچ اے کی پلاٹ اسکیم کو غیر آئینی اور عوامی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اثاثے صرف عوام کے مفاد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔