افسران نے ذاتی سیکیورٹی پرمامور پولیس اہلکاروں کوگھریلوملازم بنالیا
شیئر کریں
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر پولیس اسٹیشنز میں اہلکاروں کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے پولیس افسران اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت پر تعینات اہلکاروں کو واپس تھانوں میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب حال ہی میں تعینات ہونے والے سٹی پولیس چیف غلام نبی میمن نے ریاست کے خرچ پر مسلح محافظ رکھنے والے تمام رینکس کے افسران کو یہ سہولت واپس کرنے کی ہدایت کی۔زیادہ تر کیسز میں افسران اور ان کے اہل خانہ کی نام نہاد سیکیورٹی کے لیے تعینات یہ اہلکار محض گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے پائے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام زونل ڈی آئی جیزسے ایک اعلامیے کے ذریعے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ماتحت افسران کی سیکیورٹی کے لیے تعینات پولیس اہلکاروں کو واپس لوٹا دیں اکہ وہ پولیس اسٹیشنز میں باقاعدہ ڈیوٹی سرانجام دے سکیں۔ذرائع نے مزید بتایا کہ ہدایات میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ محافظ گارڈز، گن مین، آفس گارڈز اور ہاس گارڈز باقاعدہ ڈیوٹی سرانجام دیں گے، ان اہلکاروں کو ہفتے میں 2 دن کی چھٹی بھی دی جائے گی۔ذرائع نے کہا کہ افرادی قوت کی شدید قلت کے پیش نظر پولیس کے اعلی حکام کی جانب سے یہ فیصلہ تاخیر سے آنے کے باوجود خوش آئند ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی پولیس کو 60 ہزار اہلکاروں کی منظور شدہ نفری حاصل تھی لیکن اس وقت انہیں صرف 41 ہزار کی نفری دستیاب ہے اور 19 ہزار اہلکاروں کی بڑی واضح کمی کا سامنا ہے۔ایک اور اہلکار نے بتایا کہ یہ ایک عمومی رواج ہے کہ افسران اور ان کے اہلخانہ کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ان کے گھر کے ہر طرح کے کام کرتے ہیں، وہ ایک ڈرائیور، باورچی، باغبان اور گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سندھ پولیس کے ایک سینئر افسر تھے جو ترقی کے بعد ایک وفاقی ادارے کے سربراہ بن گئے، وہ اپنی ایمانداری کے لیے بہت جانے جاتے تھے لیکن انہیں سیکیورٹی کے لیے فراہم کیے گئے پولیس کے گارڈز بعد میں ان کے آبائی شہر میں کسان/مزدوروں کے طور پر کھیتوں میں کام کرتے ہوئے پائے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک عمومی رویہ ہے اور ہر کوئی اس سہولت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔دوسری جانب شہر میں اسٹریٹ کرائمز ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، حال ہی میں شہر میں ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں مزاحمت کے دوران ایک درجن سے زائد افراد مسلح ڈاکوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔شہر میں امن و امان کی حالیہ صورتحال کے پیش نظر پولیس اور سندھ حکومت کی کارکردگی پر سنگین سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور اس صورتحال نے تاجر برادری کو حالات مزید ابتر ہونے سے پہلے فوری حل کی تلاش پر مجبور کر دیا ہے۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد ادریس نے ایک بیان میں کہا کہ عوام اور تاجر برادری کے لیے بینک سے رقم نکلوا کر اسے بحفاظت لے جانا ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ کراچی کی گلیوں میں اسٹریٹ کرمنلز بے خوف دندناتے پھرتے ہیں اور معمولی مزاحمت پر معصوم شہریوں کو گولی مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف فروری میں مجموعی طور پر 186 گاڑیاں اور 4 ہزار 486 موٹر سائیکلیں یا تو چھین لی گئیں یا چوری کی گئیں جبکہ 2 ہزار 199 موبائل فون چھینے گئے اور 34 افراد کو قتل کیا گیا۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر نے کہا کہ کراچی شہر اسٹریٹ کرائمز سے بری طرح متاثر ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔