افغانستان و ایران میں شدت پسندوں کے ٹھکانے
شیئر کریں
بلوچستان کے طول و عرض پر ہمہ وقت شدت پسندوں کے حملوں کے سائے منڈلارہے ہیں ۔ بم دھماکا ہوتا ہے ، ہدفی قتل ہوتے ہیں۔ شہروں، صحرائوں اور پہاڑوں میں فورسز نشانہ بنائے جاتے ہیں۔25جنوری2022ء کو ضلع کیچ میں کالعدم گروہ کا حملہ نئی تمثیل ہے۔ جس میں پاک فوج کے دس جوان جاں بحق ہوگئے۔ ان سطور میں بارہا لکھا جاچکا ہے کہ افغانستان اور ایران سے متصل بلوچستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ اگرچہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد منظر نامہ سابقہ نہیں رہا، مگر اس جانب سے اطمینان و قرار اب بھی غیر یقینی ہے۔ مسلح گروہ ہنوز افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔پاکستان ان گروہوں سے بلواسطہ یا بلاواسطہ معاملات بنانے کی جستجو و کوششوں میں ہے۔ یہاں یہ پہلو مد نظر رہے کہ ان گروہوں کو کابل کی نئی حکومت کی سرپرستی قطعی حاصل نہیں۔ بلکہ ان میں داعش گروہ موجودہ حکومت کے خلاف بھی کئی جان لیوا عملیات کرچکا ہے۔ عام شہریوں اور حکومت سے وابستہ افراد کو بم حملوں اور ہدفی طور وار کرچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں ان گروہوں کا افغان سرزمین سے صفایا نہ ہوسکا ہے۔ اول ان گروہوں کو اب بھی بھارت اور دوسرے ممالک کا کسی نہ کسی طرح تعاون حاصل ہے۔ دوئم 15اگست2022ء کو اقتدار میں آنے والی نئی حکومت گونا گوں مسائل و مشکلات کا سامنا کیے ہوئی ہے۔ ہمسایہ ممالک سمیت دنیا نے اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن نے ان کے9ارب ڈالر اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ طرح طرح کی پابندیاں لاگو ہیں۔2کروڑ40لاکھ آبادی پر مشتمل افغانستان کو قحط، افلاس ، بھوک اور درماندگی کا سامنا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں کہ جس کی وجہ سے مثالی نظم اور ضبط عملداری کی حامل حکومت کودرپیش صورتحال پر کامل قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
19دسمبر2022ء کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) کا وزراء خارجہ اجلاس ، بے روزگاری، علاج معالجے کی سہولیات کی کمیابی، بیماریوں اور دوسرے انسانی مسائل زیر غور لائے گئے، تشویش کا اظہار ہوا ۔یعنی اجلاس انسانی بحران سے متعلق تھا۔ اثاثے بحال کرنے کے حوالے سے قرارداد منظور ہوئی۔ اجلاس البتہ محتاط تھا ۔ نئی افغان حکومت کے قائمقام وزیر خارجہ امیر خان متقی شریک ہوئے تھے ۔ اس قدر محتاط اور سہما اجلاس تھا کہ موجودہ افغان حکومت کے لیے افغان حکومت کا لفظ تک استعمال نہ کیا گیا۔واضح رہے کہ نئی افغان حکومت اپنے اس عزم اور یقین دہانی میں سچی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پڑوسی ممالک یا دنیا کے دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی ۔ لہذاجب تک نئی افغان حکومت تسلیم نہ کی جاتی ہے، مالی ، انتظامی طور پر مضبوط و مستحکم نہ ہو گی، تب تک افغانستان سے مسلح گروہوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یوں دہشتگردی کے خطرات و امکانات منڈلاتے رہیں گے۔ خصوصاً امریکا فی الواقع اگر چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے لیے کسی طور خطرہ کا باعث نہ رہے، تو بلا تاخیر اسے تسلیم کرے ۔ کابل کی نئی حکومت نے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔وہ دنیا سے تعاون پر آمادہ ہے اور تعاون چاہتی ہے۔ اس ذیل میں پاکستان زیادہ متاثر رہے گا۔ افغانستان سے اطمینان کے بعد ایران کی سرزمین سے ہونے والی عملیات اوربلوچستان کے پہاڑوں میں موجود شدت پسندوں سے معاملہ کرنا قدرے آسان بن جائے گا۔ درحقیقت ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔شدت پسند وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔چناں چہ پاکستان کی جانب سے تہران سے موثر احتجاج ہو نا چاہیے ۔ اوپرکے سطور میں ذکر ہونے والا حملہ انتہائی سنگین ہے۔ یہ حملہ ضلع کیچ کی سب تحصیل دشت بلنگور کے علاقے’’ سبدان‘‘ میں ایک پہاڑ پر قائم چوکی پر ہوا جو ایران سے متصل علاقے مند سے دشت کے درمیان عسکریت پسندوں کی آمدروفت پر نظر رکھنے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ اس حملے میں پاک فوج کے دس جوان جاں بحق ہوگئے۔آئی ایس پی آر نے دو دن کی تاخیر سے حملے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ایک حملہ آور بھی مارا گیا ہے، اور تین گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں جام حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کئی المناک واقعات پیش آچکے ہیں۔ 18جنوری کو کوئٹہ سے راولپنڈی پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس بولان کے علاقے مشکاف میں تخریب کاری کا نشانہ بنی۔ پٹڑی کے ساتھ نصب بم کے پھٹنے سے چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئے۔28جنوری کو ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ دھماکے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر سابق صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کے قریبی رشتہ دار اور لیویز اہلکاروں سمیت چار افراد جاں بحق اور آٹھ زخمی ہوگئے تھے۔ ظاہر ہے واقعہ شدت پسند گروہوں ہی کا کیا کرایا ہے ۔غرض پنجگور، دکی ، جعفرآباد، سبی میں بھی فائرنگ اور بم دھماکوں کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ۔یعنی کہ یہ واقعات تھمے ہی نہیں ۔بد قسمتی سے بلوچستان کے اندر حکومت ایک دم نکمی ہے، جس سے بغل گیر متحدہ حزب اختلاف کو بھی صوبے کے اندر دہشتگردی کے واقعات پر چنداں فکر و ملال نہیں ۔ تاہم اگر کسی حملہ و سانحہ میں شہریوں کا نقصان ہوتا ہے تو ایسے میں اپنی سیاست و ترجیحات کے تحت حکومت اور سیکورٹی اداروں کے خلاف سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہے۔ بی اے پی کے بلوچستان اسمبلی میں24اراکین، گیارہ سینیٹرز اور قومی اسمبلی میں پانچ ارکان موجود ہیں۔
چناں چہ ان میں غالب بے کار پرزے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی ادارے ہی یہ جنگ عسکری، عوامی اور سماجی میدانوں میں لڑرہی ہے۔ وزراء شاہی کی مذمت کی حد تک فعالیت دراصل محض اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا حربہ اور فریب ہے۔البتہ سرفراز بگٹی اور چند ایک دوسرے ان گروہوں سے متصادم ہیں ،جانی و مالی نقاصان ا ٹھاچکے ہیں۔ مدہوش وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو تین سو میٹر کی سڑک کی تعمیر کا افتتاح کر نے بھی چلے جاتے ہیں۔ ان کے بیان نویس ذرائع ابلاغ کو تصاویر جاری کردیتے ہیں کہ وزیراعلیٰ چھٹی کے دن بھی سرکاری امور نمٹارہے ہیں ۔یا دن وزراء اراکین اسمبلی اور حزب اختلاف کے ارکان سے ملاقاتوں میں بسر و ضائع کردیتے ہیں۔ اب جب ان کے اقتدار چھن جانے کی گھنٹی بجی ہے تو یہ سلسلہ خواب سے بیداری کے لمحات میں مزید تیز کرچکے ہیں۔ کیچ کے اندوہناک سانحہ کے بعد افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے علاقے دورہ کیا ، فضائی معائنہ کیا۔ کمانڈر12کور جنرل سرفراز بھی گئے۔ عبدالقدوس بزنجو بھی پہنچے تھے۔ ان کا پہنچنا بے کار تھا کہ عضو معطل ہیں۔ اور عسکری حکام بھی انہیں خاطر میں نہ لائے۔ بجا طور درست کیا ،یقینا’’ پرسنٹیج‘‘ والی سرکار اہداف کے حصول میں صفر ہے۔ یہ جھتہ شدد پسندگروہوں کے خلاف ہمہ گیر عوامی فضاء قائم نہ کرسکی ہے۔ البتہ اقرباء پروری ،من مانی اور مال بنانے کی دوڑ میں تیزی ضرور آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔